صبح کا وقت تھا، سورج آہستہ آہستہ بلند ہو رہا تھا، بہت سے لوگ پارک میں جوگنگ کرنے کے لیے آے ہوئے تھے. پارک کے بیچ میں ڈلے ایک بینچ پر ایک لڑکا پریشان بیٹھا اپنی سوچوں میں گم تھا.
اس لڑکے کا نام نبیل تھا، اس کی مالی حالت کافی عرصے سے بہت خراب تھی، اس نے بہت سے کاروباروں میں پیسہ لگایا مگر بھاری نقصان اٹھانے کے بعد اسے پیچھے ہٹنا پڑا .
اب کی بار نبیل کے ذہن میں ایک اپنا کاروباری آئیڈیا تھا، اس کے پاس تھوڑا پیسہ بھی موجود تھا لیکن یہ گھبرا رہا تھا کہ اگر یہ پیسہ بھی ڈوب گیا، اگر اب کی بار بھی اسے خسارہ ہوا تو اس کا کیا ہوگا. وہ کافی دیر سے انہی سوچو میں گم اس ڈیکس پر بیٹھا ہوا تھا.
اچانک ایک شخص جوگنگ کرتا ہوا اس کے پاس آکر رکا اس کی طرف دیکھ کر بولا 'کیا ہوا بیٹا، کیوں پریشان ہو؟'
زمان پہلے تو تھوڑا جھجکا لیکن پھر تھوڑی دیر میں اس شخص کے اصرار پر اسے اپنا پورا مسئلہ بیان کر دیا.
مسئلہ سن کر یہ شخص مسکرایا اور بولا 'کیا تمہیں پتہ ہے کہ میں بل گیٹس کا سیکرٹری ہوں' یہ کہنے کے بعد اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا، اپنی چیک بک نکالی اور ایک چیک کاٹ کر نبیل کو دے دیا نبیل نے چیک حیرانی سے دیکھا اس پر وہ شخص دس لاکھ کا اماؤنٹ لکھ کر ساتھ میں سائن کر چکا تھا.
وہ شخص مسکرایا اور بولا 'جاؤ اب تم اپنا کام کرو اور ایک سال بعد صحیح اسی جگہ پر دوبارہ ملنا اور یہ پیسے مجھے واپس کر دینا'
نبیل کو یقین نہ ہوا لیکن ساتھ ہی اس کو بے انتہا خوشی بھی ہوئی. وہ یہ چیک لے کر اپنے گھر آیا اور حفاظت سے اسے اپنے لاکر میں رکھ دیا.
نبیل سوچنے لگا کہ کیوں نہ اس چیک کے بجائے پہلے میں اپنے پیسے استعمال کروں اگر ان پیسوں میں کام ہو جائے تو بہت اچھا ہے کیونکہ یہ چیک اگلے سال واپس بھی کرنا تھا.
اگلے ہی دن سے نبیل پوری محنت کرنے لگا اور اپنا تمام سرمایہ اس کاروبار میں لگا دیا. ہوا یہ کہ اب کی بار نبیل کا پلان کامیاب رہا اور تھوڑے ہی دن میں اس کے کاروبار نے بے انتہا ترقی کی اور نبیل راتوں رات امیر ہو گیا اسی طرح دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں بدل گئے اور پھر وہ وقت اگیا جب نبیل نے اس چیک دینے والے شخص کو اس کا ادھار واپس کرنا تھا.
آج نبیل صبح اٹھ کرمنہ ہاتھ دھو کر تیار ہوا اور اپنا لاکر کھول کر وہی چیک نکال لیا. وہ اسے دیکھ کر مسکرایا کیوں کہ پورا سال اس کو چیک استعمال کرنا ہی نہیں پڑا تھا، اس کا اپنا ہی پیسہ اس کے کام کے لئے کافی رہا تھا. لیکن بہرحال نبیل نے اس شخص کا شکریہ ادا کرنا تھا اور اس کو اس احسن کا بدلہ بھی دینا تھا.
نبیل چیک کو لے کر پارک کی طرف چال دیا، پارک میں وہ بینچ پر بیٹھ کر اس بندے کا انتظار کرنے لگا کافی دیر بعد وہ شخص اسے اپنی طرف آتا دکھائی دیا. نبیل اٹھ کر کھڑا ہو گیا اس سے پہلے کہ وہ بندہ اس کے قریب اتا اچانک ایک نرس بھاگتی ہوئی آئی اور اس نے اس بندے کا بازو پکڑ لیا، اور اپنے ساتھ لے جانے لگی.
نبیل یہ سب حیرانی سے دیکھ رہا تھا، نرس نے نبیل کو پریشان دیکھ کر کہا 'معاف کیجئے گا! ساتھ میں ایک پاگل خانہ ہے یہ پاگل اکثر وہاں سے بھاگ کر یہاں آجاتا ہے اور ایک نقلی چیک سب کو دے کر بولتا ہے کہ یہ بل گیٹس سیکرٹری ہے' یہ کہہ کر نرس مسکرائی اور اس شخص کو اپنے ساتھ لے گئی.
نبیل تو بس سکتے میں کھڑا تھا اور اپنے ہاتھ میں اس چیک کو دیکھ رہا تھا. یہ چیک بھلے سے نقلی تھا لیکن اس نے اسےاصلی خود اعتمادی دی تھی جس کی بدولت وہ اپنا کاروبار شروع کرنے میں کامیاب ہوا اور آج اس کا کاروبار ترقی کی بلندیوں کو چھو رہا تھا.
نبیل نے چیک کو پھینکنے کی بجاۓ فولڈ کر کے جیب میں رکھ لیا، کیوں کہ اس چیک کی وجہ سے ہی اس کو خود اعتمادی اور الله پر توکل کی اہمیت کا اندازہ ہوا تھا، اس کو احساس ہوا تھا کہ ہم کیسے الله پرتوکل کرنے کی بجاۓ چیزوں پر بھروسہ کر کے بیٹھے رہتے ہیں حالانکہ وہ چیزیں ہمیں کامیابی کبھی نہیں دلاتیں.