بھولو کسان کا بیٹا گھوڑے سے گر کر زخمی ہو گیا تھا اور طبیب نے اسے طویل آرام کا مشورہ دیا تھا. بھولو کا کوئی اور بیٹا بھی نہ تھا اس لئے بھولو کے سارے کام رک گئے تھے، اور اسی وجہ سے بھولو کے رشتہ داروں کو ان کا مذاق اڑانے کا موقع مل گیا تھا.
کچھ رشتہ دار بھولو کو جتاتے کہ ہمارے بیٹوں نے تو اتنے اتنے کام سنبھالے ہوئے ہیں اور ان کا کام اتنا ترقی کر رہا ہے، تو کبھی لڑکے بھولو کے بیٹے کا مذاق اڑاتے اور چلتے ہوئے اس کی نقل اتار کر اسے چڑاتے .
لیکن بھولو اور بھولو کا بیٹا دونوں اس مشکل پر صبر کر کے بیٹھ گیے .
وقت گزرتا گیا دن ہفتے اور ہفتہ مہینے میں بدل گیا.
ایک دن اچانک گاؤں میں فوج کے بہت سے اہلکار داخل ہوئے اور کچھ ہی دیر میں گاؤں میں موجود تمام لڑکوں کی لائنیں لگوادی گئی تھیں. گاؤں میں موجود تمام صحت مند لڑکوں کو لائنوں میں کھڑا کیا ہوا تھا اور ان کو فوج میں بھرتی کیا جا رہا تھا.
ہوا کچھ یوں تھا کہ ساتھ والے راجہ نے اس سلطنت پر حملہ کر دیا تھا جس کی وجہ سے فوج درکار تھی اور فوج کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے آس پاس موجود تمام گاؤں اور تمام شہروں کےلڑکوں کو فوج میں بھرتی کیا جا رہا تھا.
لڑکوں کے گھر والوں نے اس بات پر بہت مزاحمت کی لیکن ان کی ایک نہ چلی اور اہلکار سب لڑکوں کو فوج میں بھرتی کر کے لے گئے.
کچھ ہی عرصے بعد مختلف خبریں آنے لگیں، کبھی کسی کے زخمی ہونے کی تو کبھی کسی کے مرنے کی اور گاؤں میں ہر گھر سوگوار ہو گیا.
لیکن گاؤں کا ایک گھر تھا جس پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا اور وہ گھر بھولو کا تھا، اس کا بیٹا زخمی ہونے کی وجہ سے فوج میں بھرتی نہیں ہوا تھا اور اب پورے گاؤں میں صرف بھولو کا کام چل رہا تھا، اس کا وہی بیٹا جو لنگڑا کر چلتا تھا تمام کام دیکھ رہا تھا اور سب سے زیادہ کامیابیاں سمیت کر کامیاب ہو رہا تھا. اب تمام گاؤں والے رشک بھری نظروں سے بھولو اور اس کے بیٹے کو دیکھا کرتے تھے اور ان کا مذاق اڑانے پر شرمندہ ہوا کرتے تھے.