آج ہم جس شخصیت سے گفتگو کرنے آئے ہیں، ان کا تعارف کروانا بہت مشکل کام ہے.
کیونکہ اگر ہم کہیں کہ وہ ایک انجینیئر ہیں، تو یہ ان کے تعارف کے ساتھ ناانصافی ہوگی اور اگر ہم تفصیلی تعارف کروانے لگیں تو وہ اتنا کچھ ڈیزائن اور کنسٹرکٹ کروا چکے ہیں کہ اس کا شمار کرنا مشکل ہو جائے گا، اور ہم یہاں ان کے انٹرویو کے بجاۓ ان کے کارناموں کی ایک طویل فہرست ہی شایع کر سکیں گے، اس لئے ہم ان کا مختصر تعارف درج کرنے کی کوشش کرتے ہیں.
محمد ساجدصاحب ایک انجینیئر ہیں اور ان کی کی گئی تعمیرات میں مکانات،کوٹھیاں، چاول کے شیلرز، چنیوٹ کالج اف ویمن، فیصل اباد کرکٹ اسٹیڈیم، ٹیکسٹائل مل، رائس مل، جوس فیکٹری، آئل و گھی انڈسٹری،بس سٹیشن، ہسپتال، ہاوسنگ سکیم اور کئی مزید چیزیں شامل ہیں.
یہ ایک آرکیٹیکٹ، آڈٹ مینیجر ، سول انجینیئر ، ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ، سپروژن انجینیئر ، کوانٹیٹی سروئیر، بلڈنگ ڈزائنر اور انجینیئرنگ پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں.
یہ کراچی، لاہور، فیصل آباد،گوجرانوالہ وغیرہ میں اپنے فن تعمیر کے جوہر دکھا چکے ہیں.
اگر ہم اس تعارف کو مزید مختصر کریں تو انجینیئر محمد ساجد، دی ہوم میکرز کے سی ای او اور کراچی آرکیٹیکچر انسٹیٹیوٹ (AIK) کے بانی ہیں.
لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ گفتگو کے دوران آپ کو یہ محسوس نہیں ہوگا کہ آپ ایک سی ای او یا کسی انسٹیٹیوٹ کے بانی سے بات کر رہے ہیں بلکہ ان کی سادہ اور دلچسپ باتیں آپ کو ان کے اخلاق اور خوش مزاجی کی جھلک دکھائیں گی.
محمد ساجدصاحب ہمیں اپنے بچپن اور ابتدائی تعلیم کے بارے میں کچھ بتائیے
ہم ڈگلس پورہ فیصل آباد میں رہتے تھے، میں اس وقت بہت چھوٹا ہوتا تھا، اس لئے اس وقت میرا سکول میں داخلہ نہیں ہوا تھا، لیکن جب میری عمر تھوڑی بڑی ہوئی تو والد صاحب مجھے 'پاجی' کے پاس لے گئے.
'پاجی' ہماری پچھلی گلی میں ہوتے تھے، ان کی چھوٹی سی ایک ڈسپنسری تھی، وہ لوگوں کا علاج بھی کرتے تھے اور بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھایا کرتے تھے.
پا جی نے ابو کو خوش آمدید کہا کہ 'آئیں مولوی صاحب!' ابو کو سب مولوی صاحب کہتے تھے.
ابو بولے 'یہ میرا سب سے چھوٹا بیٹا ہے اسے پڑھانا ہے'
پاجی نے کہا 'اچھا! چھوڑ دو اسے یہاں'
اب میں نے روز صبح 10 بجے جانا ہوتا تھا، وہاں دو تین گھنٹے گزارنے ہوتے تھے، دوپہر کھانے کے بعد چھٹی ہوتی تھی اور واپس گھر ا جاتے تھے. یا پھر دوپہر کھانے کے بعد سے شام تک کا وقت ہوتا تھا. وہ دو ٹائم بڑھاتے تھے کہ آپ کسی بھی ٹائم چلے جائیں. اس وقت ہر چیز بڑی سادی سی تھی.
انہوں نے مجھے 'الف بے' پڑھنی سکھائی اور جب انہوں نے مجھے 'کچی کا قائدہ' پورا یاد کروا دیا تو مجھے لے گئے فیصل آباد دھوبی گھاٹ، وہاں پر ہوتا تھا 'ایم سی پرائمری سکول'، وہاں انہوں نے مجھے داخل کروا دیا.
پھر ابو گئے، وہاں جا کر ماسٹر سے ملے، پھر ابو مجھے بولے 'بیٹا میں اب آیا ہوں، دوبارہ نہیں آؤں گا، اب آپ نے اپنے طور پہ پڑھنا ہے'- بس پھر ہم پڑھتے رہے .
میری دادی بہت ضعیف سی ہوتی تھی، وہ دھوبی گھاٹ اپنے گھر سے نکل کر پٹڑی پر آجاتیں، وہیں بائیں ہاتھ پر اسکول ہوتا تھا وہ وہاں کھڑی ہو جاتیں اور اسکول کے دروازے کو کھٹکھٹاتیں، وہاں سے چوکیدار بھاگا ہوا آتا 'جی اماں'
وہ کہتیں 'یہاں میرا ایک پوتا ہوتا ہے 'بھولا'، اس کو بلا دو' وہ مجھے بھولا ہی کہتی تھیں، پھر آہستہ آہستہ انہیں میرا نام یاد ہو گیا، پھر وہ ساجد کہہ کر بلاتی تھیں.
چوکیدار ماسٹر صاحب کو کہتا اور ماسٹر صاحب مجھے چھٹی دے دیتے، میں اپنا قاعدہ بغل میں دبا کر نیچے آجاتا. وہاں سے ہم چلتے، پھر وہ کہتیں 'اے مجھے 'یامین' کے گھر چھوڑ آ ' - ابو کو وہ یامین کہتی تھی - وہاں سے میں انھیں اپنے گھر لے آتا تھا.
اس وقت زندگی بڑی سادی سی تھی بچپن کے دن بڑے سہانے تھے.
بارش میں کھیلنے کا بڑا مزہ آتا تھا، میں تیسری چوتھی جماعت میں تھا، خوب بارش ہو رہی تھی، پانی بہت کھڑا ہو گیا تھا، باغ تو ویسے ہی نیچے تھا وہاں پہ اور اونچا پانی تھا.
اسکول کی چھٹی ماسٹر صاحب نے ویسے ہی دے دینی ہوتی تھی ، کیونکہ اسکول کے اندر پانی بھر چکا ہوتا تھا.
ہم بڑے کھیلے،کودے، تیرے، جوتے ہم نے حفاظت کے غرض سے بغل میں دبائے ہوئے تھے تاکہ پانی میں خراب نہ ہو جائیں، ایک طرف جوتے پکڑے ہوئے تھے ایک طرف قاعدہ.
خوشی میں بھاگتے ہوئے ہم نے روڈ کراس کیا تو روڈ پر ٹوٹی ہوئی بوتل پڑی تھی، وہ میرے پاؤں پہ لگ گئی - اس کا نشان آج بھی میرے پاؤں پہ ہے - چاروں طرف خون ہی خون ہو گیا، ایک آدمی جا رہا تھا اس نے دیکھا کہ پانی میں اتنا خون کیسا ہو رہا ہے،اس نے میری طرف دیکھا، اس نے میرا پاؤں دیکھا تو اس میں سے خون بہہ رہا تھا، اس نے جلدی سے کانچ باہر نکالا اور کس کے پٹی باندھ دی.
جب خون دیکھا تو مجھے بھی رونا آگیا - اس سے پہلے تکلیف ہو رہی تھی لیکن مجھے نہیں پتہ تھا کہ میرا خون نکل رہا ہے، لیکن جب خون نکلتے ہوئے دیکھا تو خود بخود رونا آگیا.
اس آدمی نے کہا 'نہیں بیٹا کچھ نہیں ہوا'
ہم نے کہا اچھا چلو پھر ٹھیک ہے.
اس نے مجھے گود میں اٹھایا اور دکان پہ چھوڑ دیا. ابو کو میں نے بتایا کہ ایسے ایسے کر کے ہوا، ابو ڈاکٹر کے لے گئے، اس نے گرم دودھ میں ہلدی وغیرہ ڈال کر پلایا - پہلے یہ بہت پلایا کرتے تھے.
میری ایک دو دن کی اسکول کی چھٹی کروائی، پھر میں نے کہا 'نہیں میں نے تو سکول جانا ہے'، کیونکہ اسکول کے سامنے ہی باغ تھا، ہم چھٹی ہوتے ہی باغ میں آ جاتے تھے، وہاں ہم نے کھیلنا، کودنا، الٹی چھالنگیں لگانی، دوستوں کے ساتھ ہنسنا کھیلنا ہوتا تھا.
آپنے اپنے دوستوں کا ذکر کیا، اپنے دوستوں کے بارے میں کچھ بتائیے. کیا یہ خیال واقعی صحیح ہے کہ انجینیئرز خشک طبیعت لوگ ہوتے ہیں اور دوستی نبھانے پر یقین نہیں رکھتے؟
نہیں ایسا نہیں ہے، جب ہم پرائمری کر کے نکلے تو 'ایم سی ہائی سکول فیصل آباد' میں آگیے.
میرے ساتھ ایک دوست تھا جو کہ پرائمری میں بھی میرا ساتھی تھا تنویر، وہ بھی میرے ساتھ ہائی سکول میں آگیا. یہاں ایک اور دوست بن گیا اس کا نام تھا شعیب، وہ اپنے والد کا اکیلا بیٹھا تھا، اس کے والد صاحب مولوی تھے.
ہائی اسکول میں گئے تو فلم دیکھنے کا بھی شوق پیدا ہوا، ہم شعیب کو کھینچتے کہ 'چل ہمارے ساتھ فلم دیکھنے، جب ہم جا رہے ہیں تو تو بھی چل'
وہ کہتا 'نہیں میں تو نہیں جا رہا، میرے والد صاحب کو اگر پتہ چل گیا نا، کھال اتار دینی ہے انہوں نے میری.'
جب ہم نائنتھ میں پہنچے تو ہمارے ایک ماسٹر تھے، ماسٹر بشیر صاحب، وہ میرے اور تنویر کے دشمن ہو گیے کہ 'تم دونوں ایک ساتھ کیوں بیٹھتے ہو'
ہم نے کہا 'ہم تو بچپن سے ہی ساتھ پڑھتے آرہے ہیں، پرائمری بھی ساتھ پڑھی، سیکنڈری بھی ساتھ پڑھی، تو اب بھی ایک ساتھ ہی بیٹھیں گے.
انہوں نے تنگ آکر ہمارے سیکشن الگ الگ کر دیے، مجھے 'اے' میں ڈال دیا اور اسے 'بی' میں. یہاں سے ہم دونوں الگ ہو گئے میں سائنس میں چلا گیا اور وہ آرٹس میں، کیونکہ بی ارٹس کا تھا اور اے سائنس کا.
ہم کہہ رہے تھے کہ 'ہم دونوں کو اکٹھا ہی رکھو، چاہے 'اے' میں رکھ لو یا 'بی' میں رکھ لو'
ماسٹر صاحب کا کہنا تھا کہ 'نہیں اپ کے نمبر زیادہ آئے ہیں تو آپ 'اے' میں رہیں گے، اس کے نمبر کم آیۓ ہیں تو وہ 'بی' میں جائے گا'
میں نے کہا نہیں میں بھی 'بی' میں جاؤں گا لیکن ماسٹر صاحب پہلے ہی ہمارے دشمن تھے، انہوں نے کہا 'نہیں ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا'
اور یوں ہماری بچپن کی دوستی اور ساتھ وہاں پر جا کر ختم ہو گیا.
آپ کو انجینئر بننے کے لیے کس چیز نے انسپائر کیا؟
میٹرک کے بعد میں نے 'میونسپل ڈگری کالج فیصل آباد' میں داخلہ لے لیا، ابھی میں ایف اے فائنل ایئر میں تھا جب مجھے مکان بنانے کا شوق پیدا ہوا .
والد صاحب نے آرڈر کیا کہ یہ 'رحمان پورہ' کا مکان بنانا ہے. ٹھیکے دار صادق صاحب ہمارے کنٹریکٹر تھے، وہ چچا صدیق کے دوست ہوتے تھے. ان سے ہم نے کنٹریکٹ کیا، پھر ہم نے 'بولے کی جھگی' ، 'رحمان پورہ ' کا مکان بنانا شروع کیا.
بناتے بناتے مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں انجینئر ہی بن جاؤں.
گھر بنانے سے، میں کافی کام پہلے ہی سیکھ چکا تھا، بس اس لیے شوق مزید بڑھا اور میں نے 'گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی، فیصل آباد' میں ایڈمیشن لے لیا.
اس دوران شوق مزید بڑھا کہ مجھے 'کوانٹٹی سرویر' بھی ہونا چاہیے اس کے لیے میں لاہور چلا گیا اور وہاں میں نے 'گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی، لاہور' میں ایڈمیشن لے لیا .
پہلی جاب کب، کیسے، اور کہاں لگی؟
جب میں 'گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی' میں ایڈمیشن لے کر لاہور چلا گیا تو وہاں میرے پاس دو دوست اور بھی تھے عمیر اور طاہر .
ابھی 'کوانٹٹی سرویر' کا لاسٹ ایئر چل رہا تھا، ہم مال روڈ گئے ہوئے تھے، - ہم اکثر وہاں جاتے رہتے تھے تقریبا روزانہ نہیں تو دوسرے دن چلے جاتے تھے، موسم بہت اچھا ہوتا تھا، گھنے درخت ہوتے تھے، بہترین بازار ہوتا تھا، دیکھنے میں مزہ آتا تھا - ایک دن ہم وہاں بیٹھے ہوئے 'نان ٹکی' کھا رہے تھےکہ ہماری نظر سامنے پڑی جہاں لکھا تھا 'چشتی برادرز آرکیٹکٹ آفس'، وہ نقی آر کیڈ میں فرسٹ فلور پر تھا.
ہم 'نان ٹکی' کھاتے کھاتے اٹھ کر وہاں چلے گۓ، طاہر نے کہا 'میں تو نہیں جا رہا، پہلے میں کورس مکمل کروں گا پھر کسی جاب کے لیے جاؤں گا'
ہم نے کہا 'ہم تو ابھی جائیں گے' - تو میں اور عمیر آفس میں چلے گئے.
رسیپشن پہ ہمیں پہلے تو ریجیکٹ کر دیا گیا. انہوں نے کہا کہ ہم کسی نئے بندے کو لیتے ہی نہیں ہیں، ہمیں تجربہ کار بندہ چاہیے ہوتا ہے.
جب انہوں نے ریجیکٹ کر دیا تو میں نے ان سے کہا کہ 'نہیں ہمیں اونر سے ملوائیں.'
ریسپشنسٹ اٹھ کر افس میں گیا اندر اس نے انہیں بتایا کہ اس طرح سے کر کے دو لڑکے آئے ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں جاب کرنی ہے.
چشتی صاحب بولے 'ہمارے پاس کوئی جاب ہے؟ نہیں ہے نا! تو جاؤ جواب دے دو.'
ریسپشنسٹ باہر آیا اور اس نے ہمیں جواب دے دیا ہم نے کہا 'نہیں ہمیں پہلے ان سے ایک بار ملوائیں'
ریسپشنسٹ واپس آفس میں گیا اور اس نے کہا کہ وہ لڑکے ملنے کے لیے بضد ہیں، چشتی صاحب بولے کہ 'اچھا بلاؤ'
تو ہم افس میں چلے گئے، سامنے پرویز چشتی بیٹھے ہوئے تھے جو کہ اس کے اونر تھے اور عصمت چشتی جو کہ ان کے اونرز میں سے بھی تھیں اور پرویز چشتی صاحب کی اہلیہ بھی تھیں، ان کے ساتھ دو چار بندے اور بیٹھےہوئے تھے ,ایک پرسپیکٹو بناتا تھا وہ بھی بیٹھا ہوا تھا, پھر ایک ادھیڑ عمر کوانٹٹی سرویر بیٹھا ہوا تھا جو کہ پہلے ریلوے کا کوانٹٹی سرویر رہ چکا تھا.
انہوں نے کہا کہ 'دیکھو ہمارا یہ کوانٹٹی سرویر ہے، کیا آپ ایسا کام کر سکتے ہیں؟
ہم نے کہا 'ہمیں ایک بار موقع دے کر دیکھیں'
انہوں نے کہا 'نہیں! ہم آپ کو موقع بھی نہیں دے سکتے، آ پ جا سکتے ہیں. پہلے آپ چائے پییں اور پھر چلے جائیں'
ہم نے کہا 'ہم چائے پی کر نہیں جائیں گے بلکہ ہم چائے پینے دوبارہ آئیں گے.'
ایک ہفتہ گزر گیا، اگلے ہفتے ہم پھر مال روڈ گئے وہاں کی 'نان ٹکی' بڑی مشہور تھی، ہم پہلے کھانا کھا کر سیر ہوئے، پھر ہم روڈ کروس کر کے دوبارہ سے وہاں چلے گئے.
پھرکچھ عرصے بعد تیسری مرتبہ ہم نے پھر ٹرائی کیا، اب کی بار ہم نے اس بات کو فائنل ٹچ دیا، ہم نے ان سے کہا کہ 'ایسا کریں ہمیں موقع دیں، اپ کے کوانٹٹی سرویر نے جو چیک کیا ہوا ہے وہ ہمیں دے دیں، ہم اس کو ری-چیک کریں گے، آپ اپنی رپورٹ اپنے پاس رکھیں اور پھر جو رپورٹ ہم دیں اآپ اس کو چیک کر لیں'
انہوں نے یہ بات قبول کر لی اور انہوں نے کہا چلو ٹرائی کر لیتے ہیں.
تو ٹرائی کے لیے انہوں ہمیں ایک فولڈر دے دیا،اس میں بہت ساری ڈرائنگز تھیں، یعنی جس بلڈنگ کو بنے ہوئے کوئی ١٥ سے ٢٠ سال ہو چکے تھے، اس کی ڈرائنگز نکال کے ہمیں دیں، ایک کونے میں ہمیں ایک ٹیبل دے دیا، کہ 'لو جی اس پہ بیٹھ جاؤ تم دونوں اور کوانٹٹی نکالو'
ان کا کانٹریکٹ ہوتا تھا کہ حساب میں جب بھی- 10 سال بعد، 15 سال بعد - فرق نکلتا تھا کلائنٹ کا ہو، کنٹریکٹر کا ہو، یا کنسلٹنٹ کا ہو وہ ادا کر تے تھے، اگر اپ نے زیادہ پیسے لے لیے تو آپ انہیں واپس کرتے تھے اور اگر انہوں نے کم دیے تو وہ آپ کو مزید دیتےتھے.
چیک کر کے ہم نے فرق نکال دیا 'ڈھائی لاکھ' کا - اس وقت ڈھائی لاکھ کروڑوں کے برابر تھا، پیسے کی اتنی زیادہ ویلیو تھی.
انہوں نے کہا 'نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، اس میں اتنا فرق نہیں ہو سکتا'
ہم نے انہیں کہا کہ آپ چیک کر لیں تو انہوں نے وہ سروے دوبارہ ان بزرگوں کو دے دیا کہ 'یہ بچوں نے بنا کے دیا ہے اس کو ری چیک کر لیں'
انہوں نے ری چیک کیا، دو دن انہوں نے بھی لگائے، اس سے پہلے ایک ہفتہ ہم بھی لگا چکے تھے.
تو ہمارا لگایا ہوا حساب صحیح نکلا، انہوں نے کہا کہ 'انہوں نے (یعنی ہم نے ) صحیح چیک کیا ہے. مجھ سے چوک ہوئی ہے کہ جو ٹائلوں کے بیچ میں درزیں ہوتی، ہیں میں ان کی فیلنگ نہیں لیتا لیکن بچوں نے اس کی فیلنگ بھی لی ہے، یعنی اتنی باریک بینی سے کام کیا ہے. پھر پلستر کی تہ جتنی موٹی ہوتی ہے انہوں نے اس کا حساب بھی لیا ہے اور جو اینٹوں کے درمیان فاصلہ آتا ہے انہوں نے اس کی تھکنس بھی نکال لی ہے. ہم تو یوں کرتے ہیں کہ اسکوئر فٹ لیا اور اس کا حساب نکال لیا لیکن انہوں نے بہت باریکی سے کام کیا ہے.'
تو چشتی صاحب نے ان کی تھوڑی سرزنش کی کہ آپ اتنی بڑی غلطی کیسے کر سکتے ہیں اور پھر ہمیں تھوڑا سا سراہا.
اس کے بعد انہوں نے ہمیں تین مہینے کا ٹائم دیا کہ' آپ کو ہم تین مہینے دیتے ہیں لیکن ہم تنخواہ کوئی نہیں دیں گے اگر آپ ہمارے معیار پر پورے اترے تو پھر ہم آپ کی تنخواہ لگائیں گے.'
'ہم نے کہا 'ٹھیک ہے، ہم نے کام تو کرنا ہے اور اسی دفتر میں کرنا ہے.'
انہوں نے کہا 'ٹھیک ہے لیکن تین مہینے تنخواہ کوئی نہیں ملے گی گھر سے ہی کھانا پڑے گا'
ہم نے سوچا 'ہم پہلے بھی گھر سے ہی کھا رہے تھے، ہمیں کون سا آپ دے رہے تھے.'
ویسے تو یہ سوال ہمارے پہلے سوال کا ہی حصہ تھا لیکن اپ نے کہا کہ انہوں نے اپ کی سیلری نہیں لگائی تو پہلی سیلری کب اور کتنی لگی؟
ہم نے وہاں کام شروع کیا، انہوں نے ڈیڑھ مہینہ ہمیں اچھی خاصی سختی کر کے چیک کیا، جب ہم ان کے معیار پہ پورا اترے تو انہوں نے تین مہینے کے بجائے ڈیڑھ دو مہینے بعد ہی ہماری سیلری لگا دی.
انہوں نے ہماری پہلی سیلری لگائی 700 روپے، اور 700 روپے میں ایسا لگا کہ ہمیں کتنی بڑی دولت مل گئی ہو.
( اگر اس دور کا اس دور سے تقابل کی جاۓ تو اس وقت مستری کی دہاڑی 25 سے 30 روپے ہوتی تھی اور 10 سے 15 روپے مزدور کی ہوتی تھی اور آج مستری کی دیہاڑی دو ہزار سے تین ہزار روپے ہے)
تو 700 روپے تنخواہ پر ہم خوب اچھلے، ہم نے کہا لو ہم تو بیٹھے بیٹھے امیر ہو گئے.
ہفتے بعد ہم گھر آتے تھے، ہفتے کی شام کو بائی ٹرین لاہور سے فیصل اباد گھر پہ آتے اور سوموار کی صبح کو واپس چلے جاتے تھے.
جب ہم پہلی بار تنخواہ لے کر آئے اور والد صاحب کے ہاتھ پر ہم نے تنخواہ رکھی تو وہ بڑے خوش ہوئے، انہوں نے حاجی صاحب کی دکان سے ایک لڈو کا بڑا سا ٹوکرا بنوایا - حاجی صاحب کی دکان کے موتی چور کے لڈو اس وقت بڑے مشہور ہوتے تھے ، ان کی دکان جھنگ بازار کے کونے پر حاجی سویٹس کے نام ہوتی تھی.
پھر پچھلے محلے میں ایک لڑکا رہتا تھا اسے بلوایا، اسے سب 'ماجھا ماجھا' بولتے تھے، اس سے ابو بولے 'ماجھے! چار چار لڈو تھیلی ایچ پا کے پورے محلے ایج تقسیم کر دے'
(ماجھے، چار چار لڈو تھیلی میں ڈال کر پورے محلے میں تقسیم کر دو )
اس نے کہا 'مولوی صاحب، اے کادے لڈو نے'
(مولوی صاحب یہ کس چیز کے لڈو ہیں)
ابو نے کہا 'تجھے نئیں پتہ او ساجد جڑی نوکری لگ گئی، منڈا ستھ سو روپے تنخواہ لا یا اے، اس خوشی ایچ لڈو بنٹنۓ'
(تجھے نہیں پتا ساجد کی نوکری لگ گئی ہے لڑکا سات سو روپے تنخواہ لیا ہے، اس خوشی میں لڈو بانٹنے ہیں)
اور جناب پھر اس نے لڈو کا ٹوکرا اٹھایا، لڈو خا کی کاغذ کی تھیلی میں ڈالے، پھر وہ سب کو دیتا جائے، سب جونہی پوچھیں کہ' کس کے ہیں؟' تو وہ زور زور سے بولے 'پولا نوکر ہو گیا، پولا نوکر ہو گیا، پولا لاہور ایچ نوکر ہو گیاجے'
تو جناب پورے محلے میں گونج گیا کہ 'پولا' نوکر ہو گیا. اتنی تنخواہ نہیں لگی تھی جتنے کے والد صاحب نے لڈو بانٹ دیے.
آپ کا سب سے اچھا پروجیکٹ کون سا تھا جس میں آپ کو کام کرتے ہوئے مزہ آیا ہو؟
میں نے شروع سے اس کام میں مزہ ہی لیا ہے، خواہ وہ پروجیکٹ چھوٹے سے چھوٹا ہو یا بڑے سے بڑا.
میں نے چنیوٹ میں تقریبا 22 سال کام کیا ہے، لیکن اس سے پہلے مجھے چنیوٹ میں کوئی جانتا تک نہیں تھا.
میرے ایک دوست تھے ایوب صاحب، ان کا ایک دوست چنیوٹ میں رہتا تھا جو حبیب بینک میں کیشیر تھا اس نے ایوب صاحب سے ذکر کیا کہ میں نے مکان بنوانا ہے لیکن کوئی نقشہ نویس مجھے نقشہ بناکر اور گھر ڈیزائن کر کے نہیں دے رہا کیونکہ وہ اتنا بے تکا پلاٹ تھاکہ اس کے کئی کونے نکلے ہوئے تھے کوئی دائیں کوئی بائیں اور پلاٹ بھی صرف تین مرلے کا تھا.
ایوب صاحب میرے پاس آگئے اور کہنے لگا کہ بھائی چنیوٹ جانا ہے.
میں نے کہا خیر ہے؟
وہ بولے 'میرے جڑے بھائی صاحب نے، انے چائے تے بلایا اے '
میں نے کہا چلو چل چلئے.
انہوں نے گاڑی نکالی ہم سیدھا چنیوٹ پہنچ گئے.
وہاں نقی صاحب نے ( جن کا گھر تھا) اپنا مدعا بیان کیا،ان کا پرانا سا ایک خستہ ساگھر تھا، وہ پرانی چھوٹی اینٹ کا بنا تھا، میں وہ دیکھ کے آیا اور وہاں بیٹھ کے میں نے اس کا 'لے اؤٹ' بنایا اور گھر گرا کر وہاں نیا گھر بنانا شروع کیا.
اس گھر میں میں نے ایک لاؤنج دیا اور جتنے کھانچے اس گھر میں موجود تھے میں نے ان سب کو ایک شکل دی، پھر ان کھانچوں میں ہی ایک میں ایک بیڈ روم دوسرے میں دوسرا بیڈ روم بنا دیا ایک کھانچے میں کچن بنا دیا.
جب میں نے کام مکمل کر لیا تو وہ پورے چنیوٹ میں مشہور ہو گیا کافی لوگ دیکھنے آئے کہ اتنے ٹیڑھے اور چھوٹے گھر میں اتنا کچھ بنا کیسے ہے - اور وہ بھی ہوادار یعنی اندر کہیں گھماؤ نہیں ہے اندر کوئی حبس نہیں ہے - یہ گھر چنیوٹ میں میری پہلی بنیاد تھی.
وہ بات اتنی مشہور ہوئی کہ وہ ان کے جنرل صاحب یعنی حبیب بینک کے جنرل مینجر تک بات پہنچ گئی، پھر میں نے ان کا گھر بنایا تو وہ اسے دیکھ کر انتہائی خوش ہوئے پھر ان کے ایک چھوٹے بھائی ہیں مسعود اقبال - اقبال رائس مل وا لے - جب انہوں نے دیکھا کہ بھائی کا گھر بہت خوبصورت بنا ہے، تو انہوں نے مجھے بلا لیا.
ان کا پلاٹ ایک کنال کا تھا لیکن وہ بھی ایسے ہی تھا کہ اس میں کہیں ایک طرف کھانچا تھا، کہیں دوسری طرف کھانچا اور بیچ میں سے دبا ہوا. میں نے اس پروجیکٹ کو بھی چیلنج کی طرح قبول کیا.
جب میں نے یہ پروجیکٹ مکمل کیا، تو اب کی بار عام لوگ یہ گھر دیکھنے نہیں آئے بلکہ چنیوٹ کے آرکیٹیکٹس اور انجینیئرز دیکھنے آئے کہ اخر یہ گھر اس نے ایسے بنایا کیسے ہے
اقبال صاحب اس سے اتنا خوش ہوئے کہ وہ مجھے اپنے شیلر پر لے گئے وہاں پر ان کا ایک گڈاؤن بنا ہوا تھا اور 'ایک' اور بنانا تھا.
میں وہاں صرف 'ایک' گڈاؤن بنانے گیا تھا- تین چار مہینے میں.
لیکن انہوں نے میرا کام اتنا پسند کیا کہ میں نے 'ایک' گڈاؤن کے بجاۓ وہاں 'ایک سو دس' گڈاؤن بناۓ اور تین چار مہینے کے بجاۓ ساڑھے نو سال وہاں لگا دیے.
آپ نے انجینئرنگ کی تعلیم، صرف حاصل نہیں کی بلکہ انجینئرنگ کی تعلیم دی بھی ہے، تو آپ بتا سکتے ہیں کہ انجینئرنگ پڑھنا زیادہ آسان ہے یا پڑھانا - اور دونوں میں سے زیادہ دلچسپ کام کون سا ہے؟
آپ کے اب تک کے تجربے کے مطابق ایک انجینیئر بننے کے لیے کون کون سے سکلز ضروری ہوتے ہیں ؟
سب سے پہلے تو اسے حوصلہ مند ہونا چاہیے اور اس میں برداشت ہونی چاہیے.
لوگوں کی بے جا تنقید کو برداشت کرنے کے لیے قوت برداشت اور اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کے لئے کا حوصلہ. اور ساتھ ہی اپنے صحیح کام پر دوسروں کو قائل کرنے کا فن بھی آنا چاہیے.
میں نے چودھری نذیر صاحب کی ایک کوٹھی بنائی، ان کی 32 مرلے کی کوٹی تھی. چودھری صاحب نے کہا کہ مجھے عام نقشے اور ڈیزائن سے ہٹ کر کچھ چاہیے.
میں نے کہا 'بنا دیں گے' - ان کے پاس پیسہ بہت تھا اور میرے پاس نئی چیزیں بنانے کا شوق بہت تھا.
میں ان کی پوری کی پوری کوٹھی بیسمنٹ میں لے گیا. کچن بھی بیسمنٹ میں، باتھ روم بھی بیسمنٹ میں، ٹی وی الونج بھی،یعنی ہر ہر چیز بیسمنٹ میں.
پھر ایک پورشن میں نے گراؤنڈ فلور پر بنایا یعنی گھر ڈبل سٹوری ہو گیا.
وہ کہنے لگے ساجد صاحب 'اتنی نیچے سے پانی کیسے نکالیں گے؟ - یعنی باتھ روم اور کچن وغیرہ کا پانی.
میں ہنسا اور کہا کہ 'مشکوں سے نکال لینا.'
وہ کہنے لگے 'ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ - یہ آپ نے کیا بنایا ہے؟'
میں نے کہا 'کیا یہ مکمل بن گیا ہے؟'
وہ کہنے لگے کہ 'نہیں! ابھی تو بن رہا ہے.'
میں نے کہا کہ 'پھر جب مکمل ہو جائے تو پھر بتانا کہ پانی نکل رہا ہے کہ نہیں.'
پھر میں نے اس کا ایسا زبردست سسٹم بنایا کہ بعد میں وہ بھی اس کام پر حیران رہ گیے.
آپ کا کیا خیال ہے کہ آرکیٹکچر اور سول انجینئرنگ کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے یا گھٹ رہی ہے؟
اس کی ڈیمانڈ بہت زیادہ بڑھ رہی ہے.
پہلے لوگوں میں اس بات کا شعور نہیں تھا وہ آرکیٹیکچر کی طرف جاتے ہی نہیں تھے.
ٹھیکے دار کو بلاتے تھے، کہتے تھے یہاں مکان بنا دو، وہ بنا دیتا تھا. وہ زمین میں لائنیں لگا دیتا تھا کہ لو جی ایک کمرہ یہ ہوگیا، ایک یہ ہو گیا، باہر باتھ روم ہو گیا، وہ صحن ہو گیا، یہ کچن ہو گیا، صحن میں سیڑھی اوپر چڑھ گئی.
ایک ٹیپیکل طریقہ تھا، سب کچھ ٹھیکے داروں کے اوپر چل رہا تھا. لیکن پھر جب لوگوں نے آرکیٹیکچر کے فن دیکھے تو وہ آہستہ آہستہ اس طرف راغب ہوئے .
دوسرا یہ ہوتا ہے کہ کلائنٹ کے پاس پیسے محدود ہوتے ہیں، ٹھیکے دار کام شروع کرتا تھا اور بناتے بناتے درمیان میں رک کر کھڑا ہو جاتا تھا. پھر وہ پروجیکٹ سالوں یوں ہی پڑا رہتا تھا کہ جب پیسے آئیں گے تو بنائیں گے.
لیکن جو ایک انجینیئر ہوتا ہے وہ آپ کو شروع میں ہی ایسٹیمیٹ دے دیتاہے - بتا دیتا ہے کہ پروجیکٹ پر پیسے کتنے لگنے ہیں.
پھر کلائنٹ بتاتا ہے کہ میرے پاس تو صرف اتنے اتنے (کم ) پیسے ہیں. تو انجینئر مشورہ دیتا ہے کہ آپ اس کا اتنا حصہ بنا لیں - مکمل ہو جائے گا، رہائش کے قابل ہو جائے گا ، آپ اس میں رہ لو گے - پھر جب مزید پیسے ہوں تو اس کا اگلا حصہ بنا لینا.
اگر آپ کو موقع ملے تو کون سی ایسی چیز ہے جو بنانا چاہیں گے؟
میں اب تک پہلے ہی کافی انوکھی اور انمول چیزیں بنا چکا ہوں، کیونکہ میں جب بھی کوئی پروجیکٹ شروع کرتا ہوں تو میں اس سے ایکسپیرینس لینے کی کوشش کرتا ہوں اور میری کوشش ہوتی ہے کہ میں اسے ایک نئے انداز سے شروع کروں.
کوئی ایک ایسی چیز بتائیے جس پر آپ کو فخر ہو؟
مجھے اپنی بیگم پہ بڑا فخر ہے، اس نے مجھے بڑا حوصلہ اور ہمت دی اور مجھے ٹوٹنے سے بچایا.
ہماری مراد ویسے تو کسی انجینئرنگ سے متعلقہ چیز تھی خیر اب بیگم کا ذکر آگیا ہے تو بتائیے کہ آپ زوجین (Couples) کے لیے کیا مشورہ دیں گے؟
آپس میں خلوص سے رہیں اور خلوص دل میں ہو، زبان پر نہیں - تو اپ کی زندگی خوشگوار گزر جاتی ہے.
آپ نے بتایا کہ آپ کالج لائف میں فلم دیکھنے جایا کرتے تھے، کیا کبھی سوچا کہ میں بھی اس میں سے کوئی کردار ہوتا؟
میں نے جب بھی فلم دیکھی، تو فلم کو فلم تک ہی محدود رکھا. میں نے ان کو کبھی اپنے اوپر طاری نہیں کیا کہ اس کا یہ کردار میں ہوں یا میں ہوتا -نہیں - وہ ڈرامہ ہے اسے ڈرامے تک ہی محدود رکھا.
میں بہت ساری فلموں میں وقفے کے دوران اٹھ کر چلا آتا تھا، یا یہ ہوتا تھا کہ فلم دیکھنے گئے، اور وہاں سوگیے، پھر مووی کے اختتام پر اٹھ کے آگئے.
ہمارا ایک سیگمنٹ ہے 'Ask the P.M'، اس میں آپ ہمیں بطور پرائم منسٹر جواب دیں گے - تو اب بتائے 'وزیر اعظم ساجد صاحب' آپ پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے کیا کام کریں گے؟
اگر مجھے پرائم منسٹر بنا دیا جائے تو میں ملک کو ایک نئے انداز میں لے کر چلوں گا، جس میں معاشی ترقی بھی ہوگی اور صنعتی ترقی بھی ہوگی - اور ایسا کرنے کے لیے رشوت اور اقربا پروری کا خاتمہ ضروری ہے.
ایک انجینئر کے لیے چائے ضروری ہوتی ہے یا کافی؟
اگر کوئی اچھی کافی بنائے تو میں چائے پہ ترجیح دیتا ہوں.
ہمارا ایک سیگمنٹ ہے جس کا نام ہے 'The Time Machine' یعنی اگر آپ کے پاس ٹائم مشین ہو اور آپ ماضی میں جا سکیں تو ایسی کون سی چیز ہے جس کو آپ چاہیں گے کہ وہ چیز آپ نے نہ کی ہوتی یعنی کیا Undo کرنا چاہیں گے؟
وہ چیز جو میں Undo کرنا چاہوں گا وہ چیز اندھا اعتماد ہے، کہ اگر انسان اندھا اعتماد نہ کرے تو وہ بہت سی تباہیوں سے بچ جاتاہے، اور یہ اندھا اعتماد میں نے بہت کیا ہے.
اپنے گھر اور اپنے کام کو ایک ساتھ بیلنس کر کے اور مینج کر کے چلنے کا کیا طریقہ ہے؟ یعنی ورک-لائف بیلنس کی کوئی ٹپ؟
ورک-لائف بیلنس کے لئے بہترین ٹپ یہ ہے کہ بزنس کو بزنس کی جگہ رکھیں اور گھر کو گھر کی جگہ رکھیں.
آپ نئے انجینیئرز اور اس شعبے کی طرف آنے والے طلبہ کو کیا پیغام دیں گے؟