حمزہ نے اپنی گاڑی سڑک کے کنارے لگائی، اور سامنے بنی ہوئی دکان کی طرف چل دیا. حمزہ اپنی ایک بزنس میٹنگ کے سلسلے میں صبح دوسرے شہر روانہ ہوا تھا اور اب دوپہر کو وہ اپنے تمام کام نمٹا کر واپس اپنے آفس کی طرف جارہا تھا لیکن شدید گرمی کی وجہ سے اسے سڑک کنارے دکان پر جوس لینے کے لئے رکنا پڑا تھا.
حمزہ کی نظر ایک جوس کی دکان پر پڑی، دکان والا ابھی اپنی دکان کھول ہی رہا تھا کہ حمزہ اس تک پہنچ گیا، 'بھائی ایک جوس دینا' حمزہ نے کہا، پھر اپنی گھڑی دیکھتے ہوئے بولا 'دو بج رہے ہیں، بڑی دیر سے دکان کھولتے ہو تم؟'
دکان والے نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حمزہ اور دکان والا دونوں چونک گئے، دکان والا حمزہ کا اسکول کا دوست شہریار تھا. 'ارے تم' دونوں کے منہ سے ایک ساتھ نکلا اور وہ ایک دوسرے کے گلے لگ گئے.
شہریار حمزہ کو دکان کے اندر لے گیا، حال چال کے بعد دونوں نے اپنی پرانی یادیں تازہ کیں، پھر حمزہ بولا 'تم تو انجینئیر بننا چاہتے تھے، تم پڑھنے میں بھی برے نہیں تھے، نہ ہی کسی غریب گھر سے تھے، پھر یہ پھر یہ دکان کیوں کھول لی؟'
'بس یار، کبھی کچھ تو کبھی کچھ، ایسا لگتا ہے کہ سب ہی کو مجھ سے دشمنی ہے.' شہریار بولا.
ادھر ادھر کی دو چار اور باتوں کے بعد حمزہ نے اجازت چاہی، شہریار بولا 'یار ابھی کہاں، بیٹھو، ابھی تو بہت وقت ہے.'
'تمہیں بتایا تو تھا کہ میں نے ابھی آفس جانا ہے، وہاں بھی ایک میٹنگ ہے.' حمزہ اٹھتے ہوئے بولا.
ابھی تو میٹنگ سے آرہے ہو، اب اس والی میٹنگ کو کل پر ڈال دو.' شہریار ہنسا.
دونوں ایک دوسرے سے ملے، اور حمزہ دکان سے نکل گیا لیکن پھر کچھ سوچ کر واپس پلتا اور بولا 'شہریار، اگر تم چاہو تو میں تمہیں اپنے آفس میں ایک بہترین جاب دے سکتا ہوں، دو لاکھ روپے تنخه پر.
'کیا واقعی؟' شہریار حیرانی سے بولا.
'ہاں، لیکن تمہیں کل صبح میرے آفس میں ہونا ہے.' حمزہ اسے اپنا کارڈ دے کر روانہ ہو گیا.
#
شہریار آج اپنی روٹین سے بہت پہلے یعنی صحیح گیارہ بجے اٹھ گیا تھا. اس نے اپنی بیگم کو کھانا بنانے کا کہا تھوڑی دیر اور لیٹ گیا.
بیگم جلدی سے کھانا بنانے چلی گئی، شہریار آفس میں کام کرنے کی سوچوں میں گم ہو گیا، اتنے میں اسے نیند کا جھونکا آیا اور اس کی آنکھ لگ گئی.
بیگم نے کھانا بنا کر جلدی سے اسے دوبارہ اٹھایا اور بولی 'کھانا بن گیا ہے، بارہ بج رہے ہیں.'
'اچھا آتا ہوں' شہریار جمائیاں لیتا ہوا ٹیبل پر پہنچا، اور دونوں کھانا کھانے لگے، شہریار اسے اپنے دوست کے بارے میں باتیں بتاتا رہا اور وقت کا پتہ ہی نہ چلا، وہ تو آذان کی آواز پر چونکا، 'اوہ، دیڑھ بجنے والا ہے، میں جلدی سے تیار ہو جاؤں' یہ کہ کر وہ اٹھا اور نہانے چلا گیا.
نہا کر اس نے کپڑے بدلے جوتے پالش کر کے پہنے اور دروازے کی طرف بڑھا، دروازے کے پاس لگی گھڑی اس وقت تین بجا رہی تھی.
باہر نکلتے ہوئے اچانک اسے کچھ یاد آیا اور وہ بولا 'دوپہر کا کھانا تو ساتھ دیدو مجھے'
بیگم جلدی سے لنچ بکس بنانے چلی گئی، جب لنچ بکس آیا تو اسے پانی کی بوتل یاد آگئی، بالاخر ساڑھے تین بجے وہ نکل گیا.
رستے میں اسے یاد آیا کہ موٹرسائیکل میں پیٹرول بھی ڈلوانا تھا، وہ ایک پیٹرول پمپ پر رکا اور پیٹرول ڈلوانے لگا. پیٹرول ڈلواتے اس کی نگاہ ساتھ کھڑے برگر والے پر پڑی اور برگر کی خوشبو نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا.
برگر کھانے کے بعد اور اس سے حالات حاضرہ پر اچھی خاصی گفتگو کے بعد، وہ پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا.
کارڈ پر لاکھے پتے کو ڈھونڈتے ڈھنڈاتے وہ بالاخر آفس پوہنچ گیا. جلدی سے وہ آفس میں داخل ہوا، اور گارڈ سے حمزہ کا پوچھا، گارڈ بولا 'جناب آفس کی ٹائمنگ صبح آٹھ سے پانچ ہیں، اور اب ساڑھے پانچ بج رہے ہیں، اس لئے آفس تو بند ہو چکا ہے.'
'لیکن مجھے کل ہی آپ کے صاحب نے صبح آنے کا بولا تھا.' شہریار نے ناراضگی کا اظہار کیا.
'صبح؟' گارڈ نے حیرت سے کہا اور گھڑی دوبارہ دیکھی.
شہریار یہ سن کر کچھ بڑبڑاتا ہوا مڑنے لگا تو گارڈ بولا 'کہیں آپ کا نام شہریار تو نہیں ہے؟'
شہریار جلدی سے دوبارہ اس کی طرف متوجہ ہوا اور بولا 'ہاں، میرا نام شہریار ہے.'
گارڈ نے ساتھ میز پر رکھے چند کاغذات میں سے ایک کاغذ اٹھا کر شہریار کو دیا اور بولا 'سر نے کہا تھا کہ اگر آپ آجائیں تو یہ آپ کو دے دوں'
شہریار نے جلدی سے کاغذ کھولا، اس پر لکھا تھا 'شہریار تمہیں یاد ہوگا کہ اسکول میں ٹیچرز اکثر تمہیں دیر سے کام کرنے پر ڈانٹا کرتے تھے، کل جب میں نے تمہیں دو بجے دکان کھولتے دیکھا اور جب تم نے صرف باتیں کرنے کے خاطر مجھے اپنی میٹنگ منسوخ کرنے کا کہا تو مجھے دوبارہ وہ سب یاد آگیا. تم نے کل کہا تھا کہ 'ایسا لگتا ہے کہ سب ہی کو مجھ سے دشمنی ہے' لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ تمہاری دشمن صرف تمہاری سستی ہے. تمہارا دوست حمزہ.'