دسمبر کی سرد رات میں، سمندر کے ساتھ بنی ایک بلند و بالا عمارت کی چھت پر، نمرہ آنکھوں میں آنسو بھرے کھڑی تھی. اس کے ذہن میں پرانے واقعات چل رہے تھے، اور جیسے جیسے وہ سوچ رہی تھی ویسے ویسے اس کی گرفت لوہے کی ریلنگ پر مظبوط ہو رہی تھی.
بالاخر اس نے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھے، اور دل میں کچھ فیصلہ کر کے ریلنگ کو مضبوطی سے پکڑا، اور اس پر زور دے کر دوسری طرف اتر گئی.
اب اس کے سامنے کوئی روک نہیں تھی، صرف ایک قدم اور اٹھانا تھا پھر وہ کی منزل نیچے جا گرتی. اور وہ یہی کرنا چاہتی تھی، وہ جانتی تھی کہ اس کی اس دیا میں کوئی اہمیت نہیں، اس لئے اب وہ خودکشی کرنے جا رہی تھی.
نمرہ نے نیچے دیکھا، پھر آنکھیں بند کرلیں، سمندر کی تیز ہوا سے اس کے آنسو اڑنے لگے تھے، اچانک پیچھے سے کسی نے اس کا بازو پکڑ لیا، نمرہ نے جھٹکے سے بازو چرانے کی کوشش کی لیکن گرفت بہت مضبوط تھی.
نمرہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا، یہ طلحہ تھا جو نمرہ کے اپارٹمنٹ سے تین اپارٹمنت کے آگے والے اپارٹمنٹ میں رہتا تھا.
'کیا آپ خودکشی کرنا چاہتی ہیں؟' طلحہ بولا.
'ہاں، لیکن تمہیں اس سے کیا، میرا بازو چھوڑو' نمرہ نے بازو چھڑانا چاہا.
'ٹھیک ہے، میں چھوڑ دونگا، لیکن پہلے آپ کو، مجھے اس کی وجہ بتانی ہوگی' طلحہ سمندر کی طرف دیکھتا ہوا بولا.
'کوئی ایک وجہ ہو تو میں بتاؤں بھی،' نمرہ کی آنکھوں میں پھر آنسو آگے.
'پھر ساری وجوہات بتا دیں' طلحہ نے جواب دیا.
نمرہ نے اسے گھور کر دیکھا پھر اس سے جان چھڑانے کے لئے اسے مختصر کہانی بتائی 'مجھے بچپن سے چچا چچی نے پالا، میں ان کے گھر کے سارے کام کرتی لیکن ان کی نظر میں میری کوئی اہمیت نہیں تھی، وہ لوگ دن رات میری پٹائی کرتے،
میں کچھ بری ہوئی تو انہوں نے میری شادی ایک انپڑھ سے کردی، وہ نشہ کرتا تھا اور دن رات مجھے پیٹتا تھا، اب مجھے گھر کے کام کے ساتھ نوکری بھی کرنی پڑتی اور پیسے لا کر اس کے ہاتھ میں رکھنے پڑتے، جو کہ وہ رات کو جوۓ میں اڑا دیتا،
میں گھر اور باہر کا کام کر کے بھی اس کی نظر میں اہمیت حاصل نہ کرسکی، اور دو سال بعد ہی اس نے مجھے چھوڑ دیا،
چچا نے مجھے گھر پر رکھنے سے انکار کردیا، تو میں خالہ کے پاس آگئی، ان کی طبیعت بہت خراب تھی، میں نے ان کی خدمات ہی زندگی کا مقصد بنا لیا، لیکن جب ان کی طبیعت ٹھیک ہوئی تو اس کے سال بعد ہی انہوں نے مجھے گھر سے نکل دیا،
میں اپنی نوکری کرنے لگی، کراۓ پر یہ اپارٹمنٹ لیا، لیکن تین مہینے پہلے میری نوکری چھوٹ گئی، میں نوکری کی تلاش میں تھی، لیکن کرایا صرف ایک مہینہ دیر سے دینے پر مجھے اپارٹمنٹ والوں نے دس دن میں اپارٹمنٹ خالی کرنے کو کہ دیا،
تین دن پہلے مجھے پتہ چلا کہ میرے والدین نے میرے نام جائیداد چھوڑی تھی جو چچا اور تایا نے قبضہ کی ہوئی ہے، میں نے کل تایا سے اس بارے میں بات کی لیکن مجھے سواۓ دھکوں، گالیوں، اور تھپڑوں کے انہوں نے کچھ نہ دیا.
اب تم بتاؤ، جب میری کوئی وقعت نہیں اور میری جان کی کوئی اہمیت نہیں، تو پھر جی کر کیا کرنا. اب مجھے چھوڑ دو، اور جاؤ'
طلحہ کچھ سوچتے ہوئے بولا ' ٹھیک ہے، لیکن آپ کو پتہ ہے کے جب میں چھوٹا تھا تو میرے دادا مجے کہا کرتے تھے کے کسی کے کہنے سے آپ کی قیمت اور اہمیت کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ ہر کوئی آپ کی اہمیت کو نہیں سمجھتا'
'مطلب؟' نمرہ بولی
طلحہ مسکرایا اور بولا 'میں نے بھی دادا سے یہی پوچھا تھا، وہ یہ سن کر مسکرا دیے اور انہوں نے اپنے ایک پرانے صندوق سے ایک چھوٹا سا پتھر نکال کر مجھے دیا، اور بولے 'بیٹا جاؤ، اور اس کیا اہمیت یعنی قیمت معلوم کر کے آؤ' ساتھ ہی انہوں نے مجھے بتایا کہ کس کس سے اس کی قیمت پوچھ کر آنی ہے.
میں اس پتھر کو لے کر سب سے پہلے دادا کے کہے کے مطابق ایک مزدور کے پاس آیا، اس نے اس کی قیمت بتانے کے بجاۓ ملبے کے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا کہ اس پتھر کو وہاں پھینک دو.
میں چلا اور بازار میں کھڑا ہو گیا، ایک عورت نے یہ پتھر دیکھا اور مجھ سے پانچ سو میں خریدنا چاہا.
میں دادا کے کہے کے مطابق اور آگے گیا، اور سونار کے پاس چلا گیا، اس نے اس پتھر کو حیرانی سے دیکھا اور بولا میں اس کے بارہ لاکھ دینے کو تیار ہوں.
میں حیران ہو گیا لیکن دادا کے کہے کے مطابق اور آگے گیا، اور میوزیم میں پوہنچا میوزیم میں ایک شخص نے مجھے غور سے دیکھا پھر پوچھا 'تم سے پتھر کتنے کا بچنا چاہتے ہو؟'
میں نے کہا کہ 'آپ کتنے میں خریدیں گے؟'
اس نے اپنی ایک آنکھ پر چشمہ لگایا اور کچھ دیر دیکھنے کے بعد بولا 'یہ پتھر پوری دنیا میں صرف چند ہی ہیں، میں تمہیں اس کے ڈیڑھ کروڑ تک دینے کو تیار ہوں'
طلحہ یہاں تک کہ کر رک گیا اور نمرہ کو دیکھنے لگا، پھر بولا 'میں اس روز اس سے زیادہ حیران تھا جتنا آپ اس وقت ہوئی ہیں، اور مجھے بھی اس ہی دن یہ پتہ چلا تھا کہ کسی کے کہنے سے یا کسی کے رویے سے ہماری اہمیت اور قیمت کا نہیں بلکہ دوسرے کی قابلیت اور دانائی کا پتہ چلتا ہے، ورنہ بہت سی چیزیں تو انمول ہوتی ہیں.'
طلحہ نے یہ کہ کر اس کا بازو چھوڑ دیا اور بولا 'آگے آپ کی مرضی'
نمرہ کچھ دیر خاموش کھڑی رہی پھر بولی 'کیا مجھے واپس اندر اترنے میں میری مدد نہیں کرو گے'
طلحہ آگے بڑھا اور دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا دیے.