سراج صاحب کا پورا خاندان چھٹیاں گزارنے سوات کے علاقے میں پچھلے چار دن سے آیا ہوا تھا. اس خاندان میں ان کی بیگم بلقیس، تینوں بیٹے، دو بہوئیں، اور پانچ پوتے پوتیاں شامل تھے.
سراج صاحب اپنے تیسرے بیٹے کے لئے ایک سلیقہ مند اور خدمت گزار بہو کی تلاش میں تھے، اور اسی سلسلے میں انہوں نے اپنے دوست کے گھر آنا تھا. لیکن بچوں کی چھٹیاں تھیں تو اس ہی لئے پورے خاندان نے ایک ساتھ آنے کا منصوبہ بنا لیا، اور طے یہ پایا کہ سب چھٹیاں گزر کر واپس چلے جایئں گے اور سراج صاحب اپنی بیگم کے ہمراہ آگے اپنے دوست کے چلے جائیں گے.
آج سب مل کر یہاں سے کچھ دور ایک پہاڑی پر جانے کے لئے تیار ہو رہے تھے. اس علاقے میں آنے کے بعد سے بڑوں کو ہر روز، بچوں کی فرمائش پر کہیں نا کہیں جانا پڑ رہا تھا. اور روز روز جا کر سراج صاحب، بلقیس صاحبہ اور بڑی بہو نے آج جانے سے انکار کر دیا تھا. لیکن بچوں کی ضد پر بلقیس صاحبہ اور سراج صاحب پھر بھی راضی ہو گئے.
پورا قافلہ دو گاڑیوں کی صورت میں نکلا، ایک گاڑی میں سراج صاحب، ان کا دوسرا بیٹا اور باقی سارے بچے تھے جبکہ دوسری گاڑی میں ان کا چھوٹا بیٹا اور سراج صاحب کی بیگم بلقیس اور چھوٹی بہو تھی. بڑا بیٹا اور اس کی بیگم نے آج ہوٹل میں ہی آرام کرنا بہتر سمجھا تھا.
قافلہ ابھی آدھے راستے میں ہی تھا کہ برف باری شروع ہو گئی، اور دیکھتے ہی دیکھتے طوفانی برف باری میں بدل گئی. دونوں گاڑیاں برف میں بری طرح پھنس چکی تھیں، اور تھوڑی ہی دیر میں گاڑیوں کے انجن جواب دے گئے.
جب تک طوفان جاری رہا، ان کو گاڑیوں کے شیشے بند کر کے اندر بیٹھنا پڑا، جان لیوا ٹھنڈ سے بچنے کے لئے ان کے پاس جو کچھ تھا انہوں نے وہ سب کچھ اوڑھ لیا، لیکن سب بےسود، ٹھنڈ انتہائی بڑھ چکی تھی.
جب طوفان رکا اور انہوں نے باہر نکلنا چاہا تو برف اتنی زیادہ تھی کہ گاڑیوں کے دروازے برف کی وجہ سے کھل نہیں پا رہے تھے. سب کو وہ تمام حادثات یاد آنے لگے کہ کس طرح لوگ ایسی حالت میں جان سے جا چکے ہیں.
وقت جیسے جیسے گزر رہا تھا ان کی امیدیں ٹوٹتی جا رہی تھیں اور دعاؤں میں مزید شدت آتی جا رہی تھی. پھر اچانک کسی نے ان کی گاڑی کا دروازہ کھول دیا، یہ ایک نوجوان لڑکی تھی جو اپنے والد کے ساتھ مل کر ان کی گاڑی تک پوھنچی ، اور ان کو گاڑیوں سے نکلنے میں مدد کرنے لگی.
تھوڑی دیر بعد یہ سب اس کی چھوٹی سی مگر گرم جھونپڑی میں بیٹھے آگ پر ہاتھ سیک رہے تھے. ان کو پتا چلا کہ یہ لڑکی یہاں اپنے والد کے ساتھ رہتی ہے، والدہ کو دنیا سے گزرے کئی برس بیت چکے ہیں. ہر سردیوں میں یہ یہاں پھنسے افراد کی مدد اپنا فرض سمجھتے ہیں اور دونو باپ بیٹی اس کام میں لگ جاتے ہیں.
صبح تک یہ ان کے اس جھونپڑی نما گھر میں رہے اور پھر جب راستے کھل گئے تو اپنے ہوٹل آگیے. سب نے جان بچنے پر خدا کا شکر ادا کیا. لیکن ایک الگ بات یہ ہوئی کہ سراج صاحب اور بلقیس بیگم کا آگے سراج صاحب کے دوست کی طرف جانے کا ارادہ ملتوی ہو گیا تھا، اور خدا کا شکر ادا کرنے کے بعد وہ دونوں اس ہی جھونپڑی کی طرف دوبارہ روانہ ہوئے، وہاں جا کر پہلے تو ان کا شکریہ ادا کیا اور بعد میں اس لڑکی کو اپنی بہو کے طور پر اپنانے کا ارادہ ظاہر کیا، جو لڑکی کے والد نے بھی قبول کر لیا.
یہ انتہائی حیرانی کی بات تھی، اب تک سراج صاحب اور بلقیس صاحبہ اپنے بیٹے کے لئے کئی لڑکیوں کے رشتے مسترد کر چکے تھے، کیوںکہ انھیں ایک خدمت گزار بہو چاہئے تھی. جب یہی سوال ان کے بیٹے کے منہ پر آیا تو سراج صاحب اور بلقیس صاحبہ مسکرا دئے اور بولے 'بیٹا! کیا خلوص سے خلق خدا کی خدمت کرنے والے سے زیادہ بھی کوئی خدمت گزار ہو سکتا ہے؟'