پہاڑوں کے درمیان ایک چھوٹے سے گاؤں میں بلال نامی ایک لڑکا رہتا تھا. بلال کے ماں باپ نہ تھے وہ بچپن سے اپنی دادی کے گھر پلا بڑھا تھا.
گاؤں میں دوسری اہم چیزوں کی عدم موجودگی کے ساتھ ساتھ اسکول بھی نہیں تھا. بلال یہاں رہتے ہوئے زیادہ تعلیم نہ حاصل کر سکتا تھا، کیوں کہ گاؤں میں صرف ایک چھوٹے سے سکول کے علاوہ کچھ نہ تھا. اور اسکول بھی بہتر تعلیم دینے کے قابل نہیں تھا، ٹوٹے ہوئے چند کمروں پر مشتمل اس اسکول میں اساتذہ بھی غیر حاضر رہا کرتے تھے.
لیکن بلال کا علم حاصل کرنے کا شوق بھی کچھ کم نہیں تھا،مختلف کتابیں پڑھنا اس کا ایک خواب تھا. بچپن میں وہ ہمیشہ دادی سے شہر جا کر پڑھنے کی ضد کیا کرتا تھا، اور دادی اکثر وسائل کی کمی کی وجہ سے اسے تال دیا کرتی تھیں. لیکن جیسے جیسے بلال بڑا ہوا اس کا شوق بھی مزید بڑھ گیا.
اب بلال اکیلے بھی شہر جا سکتا تھا، خود کما سکتا تھا، اور اپنی تعلیم کا خرچ خود اٹھا سکتا تھا. لیکن دادی بوڑھی ہوچکی تھیں، اب دادی اکیلی نہیں رہ سکتی تھی، وہ دادی کو تنہا چھوڑ کر نہیں جا سکتا تھا.
بلال ہمیشہ پڑھائی کے بارے میں سوچتا، شہر جا کر پڑھنے کی سوچتا لیکن پھر اسے دادی کا خیال آتا، اور وہ خاموشی سے صبر کر کے بیٹھ جاتا.
گاؤں میں کوئی کاروبار تو تھا نہیں، نہ ہی بلال کو یہاں کہیں کوئی نوکری مل سکتی تھی، اس لئے وہ لوگوں کی بکریاں چرا کر گزر بسر کرتا تھا.
ایک دن وہ بکریاں چرا رہا تھا کہ ایک بکری ریوڑھ سے جدا ہو کر جنگل میں گم ہو گئی، بلال اسے جنگل میں ڈھونڈنے لگا. کافی دیر ڈھونڈنے کے بعد اسے وہ بکری نظر آگئی، وہ اس کے قریب گیا تو وہ حیران رہ گیا، وہاں جھاڑیوں کے پیچھے ایک بہت قدیم دروازہ دکھ رہا تھا.
بلال آھستہ آھستہ دروازے کے قریب گیا، دائیں بائیں دیکھا، پھر ڈرتے ڈرتے دروازہ کھول لیا.
بلال کی آنکھیں حیرت سے پھیل چکی تھیں یہاں حد نگاہ تھا کتابیں ہی کتابیں تھیں، یہ ایک بہت بڑا کتب خانہ تھا. بلال آھستہ سے آگے بڑھا اور ایک کتاب اٹھا لی، اور وہیں بیٹھ کر پڑھنے لگا.
اس کی خوشی کی انتہا نہ تھی،اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ اس کا بچپن کا خواب پورا ہو چکا ہے. اس نے کچھ کتابیں اپنے ساتھ لیں اور واپس آگیا.
پھر یہ روز کا معمول بن گیا، بلال روز صبح بکریاں چراتا ہوا کتب خانے کے پاس لے آتا، اور شام تک وہاں بیٹھا کتابیں پڑھتا رہتا.
بلال کی دلی تمنا پوری ہو گیی تھی، اور اسے دادی کو بھی نہیں چھوڑنا پڑا تھا.