بدھ، 6 دسمبر، 2023

بھلائی کی لہر


urdu stories -  اردو کہانیاں


بلند اور بل کھاتی ہوئی پہاڑیوں کے درمیان بسا ہوا یہ گاؤں اورپور ایک پُرسکون اور دلکش گاؤں تھا. دور دور تک پھیلی ہریالی اس کے حسن میں مزید اضافہ کرتی تھی. گاؤں کی آبادی انتہائی کم تھی، یہاں کوئی کاروبار بھی نہ تھا اس لئے  گاؤں کے جوان اکثر شہروں میں کمانے جاتے تھے.

اس گاؤں میں مایا نامی ایک لڑکی رہتی تھی۔ اس کے بھی ابو گاؤں سے باہر کمانے گئے ہوئے تھے اور یہ اپنی دادی کے پاس رہا کرتی تھی. مایا  اپنی بے پناہ مہربانی اور شفقت کے لیے دور دور تک مشہور تھی۔ مایا کا خیال تھا کہ مہربانی کا سب سے چھوٹا عمل بھی ایک لہر کا اثر پیدا کر سکتا ہے، جو پوری دنیا میں اچھائی پھیلا سکتا ہے. یعنی ایک چھوٹا سا عمل پوری دنیا کو بدل سکتا ہے۔

مایا ہمیشہ سب کا خیال رکھا کرتی روز پرندوں کو دن ڈالتی اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھتی، اور ہر ضرورتمند کے کام آتی تھی. دادی بھی اس سے بھات خوش رہا کرتی تھی یہ ان کے کام ، ان کے کہنے سے پہلے پورے کر دیا کرتی تھی.

ایک دن، مایا نے اپنے دن کی شروعات پٹیل صاحب سے کرنے کا فیصلہ کیا، جو گاؤں کے کنارے پر اکیلے رہتے تھے۔ پٹیل صاحب کا خاندان ایک دور دراز شہر میں رہتا تھا کیوں کہ ان کا بیٹا اس ہی شہر میں کمانے جاتا تھا پھر کچھ عرصے بعد اس نے  وہاں اپنی بیوی اور بچوں کو بھی بلا لیا.اب پٹیل صاحب خود کو بہت تنہا اور اکیلا محسوس کر رہے تھے. مایا نے  اپنے باغ سے تازہ پھلوں اور سبزیوں کی ایک ٹوکری لے کر اس کے ساتھ ایک ہاتھ سے لکھا ہوا نوٹ بھی لکھا جس میں ان کی خیریت دریافت کی گئی تھی.

غیر متوقع تحفہ ملنے اور مایا کا نوٹ پڑھ کر پٹیل صاحب کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔انہوں نے اسے نوٹ لکھا جس میں اس کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی  دادی کے ساتھ  گھر آنے کی دعوت بھی دی. پھر انہوں نے لذیذ پھل کھاۓ.اس کے بعد انہوں نے اضافی پھل اور سبزیاں اپنے پڑوسی بلال کے ساتھ بانٹنے کا فیصلہ کیا، جس کی حال ہی میں نوکری ہٹ گئی تھی اور اب وہ بہت پریشان تھا.

بلال نے تازہ پیداوار کی ٹوکری حاصل کرنے پر پٹیل صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ان کے اس رویے سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے ان سبزیوں کا استعمال کرتے ہوئے ایک دلکش کھانا پکانے کا فیصلہ کیا اور اپنے نوجوان پڑوسی، ٹومی کو مدعو کیا، جو کالج میں مسائل کی وجہ سے پریشانی محسوس کر رہا تھا۔ کھانے کے دوران بلال نے ٹامی کے مسائل کو توجہ سے سنا، اور اسے ٹیوشن پڑھانے کی پیشکش کی جس سے ٹومی کو بہت خوشی ہوئی اور وہ ان کا بہت احسان مند ہوا. کھانے کے بعد ٹومی ان کا شکریہ ادا کر کے اپنے گھر آگیا.

بلال کی پیشکش سے خود حوصلہ افزا محسوس کرتے ہوئے، اور کچھ ہی دنوں مے اس ٹیوشن کے مثبت اثرات دیکھتے ہوئے، ٹومی نے اپنے کالج  کی کلاس فیلو فاطمہ کے ساتھ مہربانی کرنے کا فیصلہ کیا، جو اپنی پڑھائی میں مشکلات کا شکار تھی۔ اس نے اسے بلال کے پاس ٹیوشن پڑھنے کا مشورہ دیا، اور خود سر بلال سے اس بارے میں بات کرنے کی پیشکش کی، 

فاطمہ نے اس پر اس کا شکریہ ادا کیا یوں دیکھتے ہی دیکھتے سر بلال کے پاس بھی طالب علموں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا.
فاطمہ نے  ٹیوشن آنا شرو کیا تو اس کے امتحانات کے نتائج اچھے ہونے لگے،اور وہ خود بھی اس قبل ہوگئی کہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو پڑھا سکے. اب اس نے اپنے بہن بھائیوں کو خود پڑھانا شروع کر دیا. اس کا چھوٹا بھائی انس کو اس سے بہت فائدہ ہوا اور اس کے نمبر ٹیسٹوں میں اچھے آنے لگے.  

ٹیسٹوں میں اچھے نمبر آنے سے انس کا اعتماد بحال ہوا. اس کے نئے اعتماد نے اسے اسکول کے کرکٹ مقابلوں میں حصہ لینے کا حوصلہ دیا، یہ  وہ ہمیشہ سے کرنا چاہتا تھا لیکن کوشش کرنے میں بہت شرماتا تھا۔ اس نے بیٹنگ کرتے ہوئے ایک شاندار پرفارمنس پیش کی جس نے تمام دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیا۔

حاضرین میں سے ایک ایک مقامی کرکٹ اکیڈمی کے لیے سلیکٹر تھا۔ انس کی کارکردگی  سے متاثر ہو کر اس نے اسے اپنی اکیڈمی میں اسکالرشپ کی پیشکش کی۔ کرکٹر  بننے کا انس  کا خواب آخر کار پورا ہو گیا۔

جیسا کہ انس نے اپنے شوق کو آگے بڑھایا اور ایک کامیاب کرکٹر بن گیا، اسے اپنی بہن کی طرف سے اس کے ساتھ کی گئی مہربانی یاد آیی اور یہ کہ اس نے اس کی زندگی کو کس طرح بدل دیا تھا۔ اس نے پسماندہ بچوں کے لیے ایک سکول بنانے کا فیصلہ کیا، انہیں ایسے مواقع فراہم کیے جو ان کے پاس نہیں تھے۔

اس اسکول میں ایک بچہ پڑھتا تھا، اسکا نام زبیر تھا. یہ  بہت غریب گھرانے سے تعلق رکھتا  تھا، انس کے مفت اسکول سے زبیر کو بھی اپنی تعلیم مکمّل کرنے میں مدد ملی. تعلیم مکمل کر کے اس نے ایک کاروبار شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا کاروبار کامیابی کی بلندیوں پر پوہنچ گیا. ہر بارے شہر میں اس کارخانے تھے. لیکن زبیر کو اپنا ماضی یاد تھا اس لئے اس نے بھی غریبوں کی مدد کرنے کا سوچا اور ایک کارخانہ ایک غریب گاؤں میں لگانے کا سوچا اس کارخانے سے وہاں کے غریب لوگوں کا بہت بھلا ہوا اور انکی زندگیاں آسان ہونے لگیں.

سال گزر گئے، اور یہ کارخانہ پھلتا پھولتا رہا، جس نے لاتعداد لوگوں کی زندگیوں کو بدل دیا. زبیر نے اس کارخانے میں اس ہی گاؤں کا ایک ہنرمند اور محنتی آدمی مینیجر رکھا جس کا نام عبید تھا. 

یہ غریب گاؤں اورپور ہی تھا اور عبید مایا کا شوہر تھا. وہی مایا جو بھلائی کی طاقت پر یقین رکھتی تھی، وہ جوان ہو چکی تھی اور اس کی شادی عبید سے ہو چکی تھی اب مایا کے شوہر کو اس کے والد کی طرح گاؤں سے باہر کمانے نہیں جانا پڑتا تھا بلکے اب اس ہی گاؤں میں کارخانہ لگ چکا تھا.

اس تمام مثبت تبدیلی کا آغاز مایا ہی کی مہربانی کے ایک سادہ سے عمل سے ہوا، اور نیکی کا ایک ایسا اثر شروع ہوا جس نے بہت سے لوگوں کی زندگیاں بدل دیں.

آخر میں، مایا کا عقیدہ سچ ثابت ہوا کہ "بھلائی چاہے کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو، ایک ایسی لہر پیدا کرنے کی طاقت رکھتی ہے جو پوری دنیا میں محبت، امید اور مثبتیت کو پھیلا سکتی ہے."

Post Top Ad

Your Ad Spot