اونچی پہاڑیوں کے درمیان بسے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک بڑا خاندان رہتا تھا۔ یہ اپنی منفرد روایت کے لیے مشہور تھے۔ یہ روایت نسل در نسل چلی آ رہی تھی، اور یہ ان کے خاندان کے اتحاد کی بنیاد تھی۔
ہر سال، جیسے ہی موسم بہار کی پہلی پہلی ہوائیں گاؤں کو خوشگوار رنگ دیتیں، یہ خاندان اپنے سب سے پرانے درخت کے سائے میں جمع ہوتا تھا۔ یہ پرانا درخت ان کے دادا کے بھی دادا نے لگایا تھا. اس کے بعد سے ان میں یہ روایت بن گئی تھی کہ ہر شخص اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے درخت لگاتا، جب بچے بارے ہو جاتے تو وہ اپنے درخت اور اپنے ماں باپ کے درختوں کی حفاظت کرتے اور ان کا خیال رکھتے.
سال میں کسی ایک دن سبخوشی اور محبت کے ساتھ اس درختوں سے بھرے باغ میں جمع ہوتے، اور مزید نیے پودے لگاتے، اور پرانے پودوں کی دیکھ بھال کرتے۔ درخت ایک دوسرے سے ان کے تعلق اور وابستگی کی علامت بن گئے تھے.
یہ خاندان پانچ نسلوں پر مشتمل تھا، پردادا ہمایوں سے لے کر سب سے چھوٹی پوتی سارہ تک۔ جیسے جیسے سال گزرتے گئے،اس خاندان کو زندگی کے مختلف حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے خوشیاں منائیں اور طوفانوں کا موسم بھی دیکھا پر ہمیشہ ایک دوسرے کے درخت کی پناہ میں سکون اور خوشی تلاش کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے درختوں کی چھتری کے نیچے کہانیاں، خواب اور راز بانٹے۔
لیکن جیسے جیسے خاندان بڑا ہونے کے لگا ویسے ویسے پھیلنے لگا، بہت سے بچے تعلیم کے لئے اس گاؤں سے شہر جانے لگے، خاندان کے بزردوں نے اس بات کو اچھا نہیں جانا ان کا کہنا تھا کہ سب کو مل کر چاہیے. لیکن کسی کو پڑھائی تو کسی کو کاروبار کے سلسلے میں بھر جانا پڑا.
سارہ جب کالج کے لیے کراچی روانہ ہونے کی تیاری کر رہی تھی تو اس نے سب میں اس کے جانے پر تلخی محسوس کی۔ سارہ اپنے پر دادا سے سب سے قدیم درخت کے پاس کھڑے ہو کر بولی، "بالکل اس درخت کی طرح، ہمارا خاندان بڑھتا رہے گا، چاہے زندگی ہمیں کہیں بھی لے جائے۔ ہماری جڑیں بہت گہری ہیں، اور ہماری محبت لازوال ہے۔"سب خاموش رہے کیونکہ سب جانتے تھے کہ کراچی جیسے بڑے اور ترقی یافتہ شہر جانے والے واپس کب آیا کرتے ہیں.
کئی سال گزر گئے، ایک دفعہ گاؤں میں ایک شدید طوفان آیا، جس سے ان کے کئی درخت جڑ سے اکھڑ گئے،اور سب سے پرانے درخت کے گرنے کا بھی خطرہ ہو گیا۔ یہ ان سب کے لئے بڑے دکھ اور خوف کا لمحہ تھا، لیکن پھر پورے خاندان نے عجیب بات دیکھی.
رات کو طوفان تھم گیا اور جب صبح کی روشنی پھیلنے لگی تو وہ سب باہر نکلے اپنے پرانے درخت کو بچانے کی کوشش کرنے لگے لیکن ان کے پاس کوئی مشینری نہیں تھی جس کی وجہ سے یہ اتنے بلند اور بھری درختوں کو واپس جگہ پر نہیں لا پا رہے تھے. انہوں نے رسیوں اور ڈنڈوں کی مدد سے یہ کام کرنے کی کوشش کی، چھوٹے پودے تو کچھ درست ہوئے پر وہ بڑے درختوں کو سہی کرنے میں ناکام رہے.
اچانک انہیں بھری مشینری کی آواز آی سب نے جب دیکھا تو حیران رہ گئے کیوں کہ سارہ کراچی شہر سے جدید مشینری کے ساتھ آچکی تھی. پھر سب ایک نیی ہمت کے ساتھ جمع ہوئے اور سب کی متحد کوشش سے اور سارہ کی بروقت مشینری لانے کی وجہ سے وہ اپنے پرانے درخت کو بچانے میں کامیاب ہو گئے۔
اس واقعے نے ان میں اتحاد مزید بڑھا دیا اور یہ درخت ان کے اس اتحاد کی علامت بن گئے. ساتھ ہی سارہ کے اس کام نے بزرگوں کو بھی یہ بتا دیا کے تعلیم کے لئے بڑے شہروں میں جانے میں کوئی حرج نہیں ہے. تعلیم حاصل کرنا ضروری بھی ہے اور فائدہ مند بھی ورنہ نہ ہی سارہ کو مشینری کا کوئی علم ہوتا نہ ہی وہ اپنے درختوں کو بچا پاتے.