جمعہ، 8 دسمبر، 2023

چابی

اردو کہانیاں - urdu stories

ہیون بروک شہر میں معمول کی طرح رونق اپنے عروج پر تھی. جیسے جیسے سورج افق سے نیچے ڈوب رہا تھا، ہلچل والی سڑکوں پر لمبے سائے ڈال رہا تھا، رونق مزید بڑھتی تھی. بس اسٹاپ شور سے گونج رہا تھا. لوگوں کے ہجوم میں، ایک شخصیت نمایاں تھی، اور وہ تھی ایملی.یہ ایک نوجوان لڑکی تھی. ایملی ابھی اپنی پارٹ ٹائم جاب سے گھر جاتے ہوئے بھیڑ بھری سٹی بس میں سوار ہوئی تھی۔

ایملی بوہت سادہ سی لڑکی تھی لیکن اس کے دل میں ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی. کوئی ایسا موقع جس میں وہ کسی کی مدد کر سکے، وہ نہ چھوڑتی تھی، وہ اپنے محلے میں بھی ایک مہربان پڑوسی کے طور پر جانی جاتی تھی، جو کسی بھی ضرورت مند کی مدد کرنے کو ہر وقت تیار رہتی تھی.

جب وہ مسافروں کے سمندر میں پھنسی ہوئی تھی تو اس کی نظر اس کی ساتھ والی سیٹ پر پڑے ایک لاوارث بیگ پر پڑی، یہ ایک سادہ سا چھوٹا بیگ تھا، سیاہ رنگ اور ایک سادہ زپ کے ساتھ، لیکن جس چیز نے ایملی کی توجہ مبذول کرائی وہ یہ تھی کہ عجلت اور جلد بازی کی ہوجہ سے اس بیگ کا مالک اس کو بھول کر چلا گیا تھا.

فطری طور پر، ایملی نے بیگ اٹھایا، اس کی شفقت آمیز طبیعت نے فوری اس بیگ کے مالک کو تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے جلدی سے بس میں ہر ایک کو غور سے دیکھا،اور کسی ایسے شخص کو تلاش کرنے کی کوشش کی جو اپنے گمشدہ سامان کی تلاش میں پریشان دکھائی دے رہا ہو.

حیرت کی بات یہ تھی کہ بس میں کوئی بھی شخص پریشانی کی حالت میں نہیں تھا۔ مسافر گپ شپ کرتے، ہنستے، اور اپنے کاروبار اور کھیل کے بارے میں ایسے باتیں کر رہے تھے جیسے کسی کا بھی سامان نہ کھویا ہو، ایملی مزید پریشان ہو گئی اور سمجھ گئی کہ بیگ کا مالک پہلے ہی کہیں اتر چکا ہے.

وہ بس کے آگے والے حصے میں پہنچی اور بس ڈرائیور سے پوچھا کہ کیا اس نے کسی کو جلدی میں جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ بس ڈرائیور، ایک بزرگ سفید داڑھی والا شخص تھا، سر ہلا کر بولا۔ "معاف کیجئے گا، میں نے کسی کو جلدی میں نہیں دیکھا۔ ویسے یہ اس بس کا آخری اسٹاپ ہے."

ایملی کا دل ڈوب گیا. اس نے بیگ کو اس کے صحیح مالک کو واپس کرنے کا موقع گنوا دیا تھا. تھوڑی ہی دیر میں بس کا آخری اسٹاپ بھی آگیا، ایملی اپنے ہاتھ میں بیگ پکڑے بس سے اتری، وہ اپنے اندر بے چینی محسوس کر رہی تھی۔ بس اسٹاپ پر وہی گہما گہمی تھی، بازاروں میں بھی رش مزید بڑھتا جا رہا تھا.

لیکن شہر کی اندرونی سڑکیں اب مدھم روشنیوں سے جگمگا رہی تھیں، اور باہر کی گہما گہمی کا ماحول سے اندر کی طرف آکر انتہائی پرسکون محسوس ہو رہا تھا.

جب ایملی ویران گلی میں مڑی تو اسے ایسا لگا کہ جیسے اس نے ایک الگ ہی دنیا میں قدم رکھ لیا ہے، حالانکہ وہ روز یہیں سے اپنے گھر جایا کرٹ تھی مگر اب اسے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وقت کی رفتار کم ہو گئی ہے، اور کوئی ہے جو اس کے آس پاس حرکت کر رہا ہے.

اچانک اس کے ہاتھ میں موجود تھیلا بہت بھاری محسوس ہونے لگا، ایملی نے خوفزدہ ہو کر بیگ کو دیکھا، وہ اسے یہیں چھوڑ کر بھاگنا چاہتی تھی، مگر کچھ سوچ کر اس نے تجسس سے بیگ کو ٹٹولا، اور بیگ کی تھوڑی سی زپ کھولی. اندر سے ایک ہلکی سی چمک اس کے چہرے پر پڑی، اس نے زپ کو مزید کھینچتے ہوئے پورا کھول دیا. اندر ایک چھوٹا سا باکس رکھا تھا جو کچھ چادروں میں لپٹا ہوا تھا.

ایملی نے باکس کھولنے کا ارادہ کیا. اس کے دل کی دھڑکن بےقابو ہو رہی تھی. اس نے جیسے ہی اس نے باکس کھولا، اندر اسے ایک نازک پر قدیم نظر آنے والی چابی ملی جس میں ایک نوٹ منسلک تھا۔ نوٹ میں لکھا تھا، "عجائبات کی چابی آپ کے سامنے ہے۔ دروازہ کھول دیں، اور آپ کو جواب مل جائے گا۔"

پراسرار پیغام سے ایملی کی ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی لہر دوڑ گئی. اسے کچھ معلوم نہیں تھا کہ یہ چابی کس چیز کی ہے، بیگ کس کا ہے، یا اس بیگ کو بس میں کیوں چھوڑ دیا گیا تھا۔ لیکن ایک چیز واضح تھی کہ وہ ایک غیر معمولی سفر پر جانے والی تھی، جو اسے ایک ایسے راز کی گہرائی میں لے جائے گا جس کا اس نے کبھی تصور نہیں کیا تھا۔

ایک ہاتھ میں بیگ اور دوسرے میں چابی لے کر، ایملی نے ایک فیصلہ کیا کہ وہ سراغوں کی پیروی کرے گی، تھیلے کے اندر چھپے رازوں سے پردہ اٹھائے گی، اور ایسا کرتے ہوئے، وہ ہر خطرے کا مقابلہ کرے گی، اور پھر ایک ایسی دنیا دریافت کرے گی جس کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا. پھر ہلچل سے بھرے اس شہر ہیون بروک میں نہیں بلکہ وہاں رہے گی. اسے ویسے بھی تنہائی پسند تھی اور اس رش والے شہر میں رہنا اسے کبھی بھی پسند نہیں تھا. لیکن ایملی کو معلوم نہ تھا کہ اس کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدلنے والی تھی، اور وہ بھی اس پراسرار بیگ کی وجہ سے جو اسے اس عام سٹی بس میں ملا تھا۔

ایملی وہیں مدھم روشنی والی گلی میں کھڑی اپنے اگلے اقدامات پر غور کر رہی تھی.اس نے ارد گرد دیکھا، تو اس کو ایک قریبی عمارت، جس میں لکڑی کے دروازے تھے، یہ اس کو جدید عمارتوں کے درمیان عجیب سی لگی۔ ویسے تو یہ عام سے بات تھی لیکن اس کے بارے میں ایک چیز نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا کہ اتنی پرانی چابی اس ہی دروازے میں لگ سکتی ہے۔ ہاتھ میں چابی لیے، وہ دروازے کے قریب پہنچی، اس کا دل اس کے سینے میں زور زور سے دھڑک رہا تھا۔

جیسے ہی اس نے پرانے تالے میں چابی ڈالی، چابی آسانی سے گھوم گئی، دروازہ کھل گیا. ایک تنگ اور مدھم روشنی والا کوریڈور سامنے تھا. جو آگے اندھیرے میں اترتا ہے۔ ایملی نامعلوم جگہ پر قدم رکھنے کے خطرات پر غور کرتے ہوئے ایک لمحے کے لیے ہچکچائی۔ لیکن ایک فطری تجسس نے اسے آگے بڑھنے پر مجبور کر دیا۔

تنگ سیڑھی نیچے کی طرف جا رہی تھی اور ہر قدم کے ساتھ، ہوا ٹھنڈی ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی. وہ نیچے اترتی گئی یہاں تک کہ راہداری کے آخر میں لکڑی کے ایک بھاری دروازے تک پہنچ گئی۔

جیسے ہی ایملی نے احتیاط سے دروازہ کھولا، اس نے خود کو ایک وسیع زیرزمین کمرے میں پایا، جو ایک ہلکی روشنی سے روشن تھا.اس کمرے میں کوئی آواز نہ تھی، کوئی دوسرا فرد نہ تھا، صرف سامنے ایک جگہ پر ایک کتاب رکھی تھی. وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ادھر آ گئی.

جیسے ہی ایملی نے کتاب کھولی اس میں کسی خوبصورت گھر کی تصویریں موجود تھیں، ایسی بہت سی تسزیریں اس نے اپنے پاس بھی جمع کر رکھی تھیں، اس خیال سے کہ اگر کبھی اس نے گھر بنایا تو وہ ایسا ہوگا. وہ اپنے خوابوں کے گھر کی تصویریں دیکھ کر حیران تھی. اور جلدی جلدی صفحے پلٹتی ہوئی آخر تک آگئی.

آخری صفحے پر لکھا تھا کہ "یہ گھر تمہارا ہے ایملی" اپنا نام دیکھ کر وہ اور بھی حیران رہ گئی. ساتھ ہی ایک چابی لگی تھی. جیسے ہی اس نے اس چابی کو پکڑا کمرہ روشن ہو گیا. سامنے کا ایک دروازہ کھل گیا. ایملی خوفزدہ ہو گئی تھی. سامنے دروازے سے بوہت سے لوگ اندر داخل ہو رہے تھے.

جب سب لوگ اندر آ گئے تو ایملی نے سب کو غور سے دیکھا. ایک اس کی پڑوسی تھی جس کی وہ ہمیشہ مدد کرتی تھی، دوسری ایک بزرگ خاتون تھی جس کا سامان ایملی لا کر دیا کرتی تھی، ایک اور طرف ایک بچہ تھا جس کو اس نے امتحانات کی تیاری کروائی تھی، ایک اور طرف مالی تھا جس کی وہ پودوں میں پانی دینے میں مدد کروایا کرتی تھی، یعنی ہر طرف وہ لوگ موجود تھے جن کی ایملی مدد کیا کرتی تھی.

اس کے ماں باپ بھی ان میں موجود تھے جن کی بڑھ کر خدمت کیا کرتی تھی. وہ دونوں آگے بڑھے، اور مسکرا کر بولے "تم ہمیشہ ہمیں خوش رکھنے کے لئے محنت کیا کرتی تھی، ہم سب نے سوچا کہ کیوں نا آج تمہیں خوش کیا جاۓ." سب مسکرا رہے تھے، ایملی نے چابی کس کے پکڑی، وہ اپنے نئے گھر میں جانے کے لئے تیار تھی.

Post Top Ad

Your Ad Spot