طلحہ نے خود کو زندگی کے ایک چوراہے پر پایا۔ اس نے حال ہی میں آرٹس میں ڈگری کے ساتھ کالج سے گریجویشن کیا تھا، اور جب اس کے اہل خانہ اور دوستوں نے اسے اس کی کامیابی پر اسے مبارکباد دی تو اس نے اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کی کیفیت کو محسوس کیا۔ کیوں کہ آرٹس کی ڈگری کے ساتھ کوئی اچھی نوکری تلاش کرنا خاصہ مشکل کام تھا. اب اکیڈمی کا آرام دہ ماحول پیچھے رہ گیا تھا، اور اب وہ اس مرحلے پر کھڑا تھا کہ اسے خود فیصلہ کرنا تھا کہ آگے کیا کرنا ہے اور اس کو یہ فیصلہ کرنے میں مشکل کا سامنا تھا۔
طلحہ ہمیشہ سے منصوبہ سازی کے ساتھ چلنے کا عادی تھا۔ وہ اپنے سامنے ایک واضح راستہ رکھنا پسند کرتا تھا، جو قابل حصول اہداف اور ٹائم لائنز کے ساتھ مکمل ہو۔ لیکن اب، جب اس نے اپنے گریجویشن سرٹیفکیٹ کو دیکھا، تو اسے احساس ہوا کہ زندگی کسی ایک طریقے کے ساتھ نہیں چلتی۔ چاہے آپ اسے گزرنے کے لئے کتنا ہی اچھا پلان کیوں نہ بنا لیں، کبھی اسے حالت پیش آہی جاتے ہیں کے آپ کو پلان بدلنا پڑتا ہے.
اس نے جاب کی لسٹنگ کو اسکرول کرنے، کیرئیر فیرز میں شرکت کرنے، اور بیشمار کومپنیوں میں ریزیومے بھیجنے میں گھنٹوں گزارے لیکن یہ سب کام بیکار ثابت ہوئے اور جیسے جیسے دن ہفتوں میں بدلے، اور پھر ہفتے مہینوں میں، تو طلحہ مسترد ہونے کی وجہ سے مایوس ہونے لگا.
ایک شام، جب وہ اپنی بالکونی پر بیٹھا شہر کا نظارہ کررہا تھا، اس کا ہوسٹل کا روم میٹ، عبید، اس کے پاس آیا۔ عبید طلحہ کی مخالف طبیت کا تھا، بہادر، بے ساختہ، اور ہمیشہ چیلنج کے لیے تیار۔
عبید نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا، "تم یہاں بہت دیر سے بیٹھے ہو، خیریت ہے؟"
"نہیں، کچھ نہیں." طلحہ نے جواب دیا.
کوئی مسلا ہے، تو بتا سکتے ہو." عبید اس کے پاس ہی بیٹھ گیا.
طلحہ نے سرد آہ بھری، اس کی نظریں نیچے شہر کی روشنیوں پر جم گئیں "میں نے ہر جگا سی وی دی مگر کوئی کامیابی نہیں ہوئی. اب میرے پاس آگے کا کوئی منصوبہ نہیں، کچھ سمجھ نہی آرہی."
الیکس نے نیچے جنکتے ہوئے مسکرا کر کہا "کیا تم جانتے ہو، ہر چیز کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بعض اوقات بہترین لمحات جب آتے ہیں جب آپ ان کی کم سے کم توقع کررہی ہوتے ہیں۔ کیا اس ہفتے کے آخر میں ہم ایک سفر پر جائیں؟ بس آپ اور میں، کوئی منصوبہ نہیں، ذہن میں کوئی منزل نہیں ہے"
طلحہ میں کہیں ایک امید تھی جو اس کے ریزیومے کے ڈھیر میں دب کر رہ گئی تھی، وہ بولا "روڈ ٹرپ؟ ہم کہاں جائیں گے؟"
"کہیں بھی،" عبید نے آنکھوں میں شرارتی چمک کے ساتھ جواب دیا۔ "ہم سڑک کو ہماری رہنمائی کرنے دیں گے۔ یہ تمہارے دماغ کو صاف کرنے کا بہترین طریقہ ہے اور ہوسکتا ہے کہ تمہیں کچھ جواب مل جائیں جن کو تم تلاش کر رہے ہو۔"
"خیر، جب ویک اینڈ آے گا تب دیکھیں گے." طلحہ نے سوچتے ہوئے کہا.
جیسے جیسے ویک اینڈ قریب آیا، طلحہ نے ہچکچاتے ہوئے روڈ ٹرپ پر رضامندی ظاہر کی۔ انہوں نے ایک چھوٹا سا تھیلا باندھا، کچھ ناشتہ لیا، اور کھلی سڑک پر بائک لے کر نکل پڑے۔ کھلی شاہراہ کی آزادی پرجوش طریقے سے دکھ رہی تھی، لیکن اس نے طلحہ کو بھی بے چین کر دیا کہ کیا یہ اچانک سفر اس کی پریشانیوں سے صرف ایک فرار تھا یا واقعی اس سے کوئی حل نکل سکتا تھا۔
اس سفر کا پہلے چند میل جوش اور اضطراب کی آمیزش میں کٹے۔ طلحہ کا دماغ ملازمت کی درخواستوں اور انٹرویوز کے خیالات سے دوڑ رہا تھا۔ لیکن جوں جوں میل گزرتے گۓ اور منظر بدلتا گیا، اس کے اندر کی کوئی چیز بدلنے لگی۔
وہ چھوٹے چھوٹے بہت سے دیہاتوں سے گزرے، اور راستے میں دلچسپ لوگوں سے ملے۔ ایک گاؤں والوں کو انہوں نے دیکھا کہ ان کے پاس کھانے کو کھانا اور رہنے کو سہی گھر بھی نہیں لیکن طلحہ نے محسوس کیا کہ وہ ناامید اور غمزدہ نہیں ہیں، بلکہ جب یہ دونوں گاؤں میں داخل ہوئے تو گاؤں والوں نے ان پر اپنی غریبی ظاہر بھا نہ کی اور ان کو کھانے کی پیشکش بھی کی.
طلحہ کا الجھا ذہن سلجھنے لگا اور وہ بے ساختہ ان کی تعریف کرنے لگا۔ اس نے محسوس کیا کہ زندگی ہمیشہ اس کے طے کئے گئے راستے پر نہیں چلتی بلکہ اس میں غیر متوقع رستے اور موڑ آتے رہتے ہیں۔
ایک شام جب وہ ستاروں سے بھرے آسمان کے نیچے کیمپ فائر کے ارد گرد بیٹھے تھے، طلحہ نے عبید کی طرف متوجہ ہو کر کہا، "آپ جانتے ہیں، میں کوئی کام تلاش کرنے پر اتنی توجہ مرکوز کر چکا تھا کہ میں یہ بھول گیا تھا کہ جینے کا کیا مطلب ہے۔ شاید یہ سفر بہت کچھ سیکھنے اور آگے بڑھنے میں مددگار ثابت ہو۔"
عبید نے مسکرا کر طلحہ کو دیکھا اور بولا "یہی بات میں تمہیں سمجھانا چاہتا تھا کہ زندگی صرف وہی نہیں ہے جیسا ہم نے سوچ لیا ہے یا اس کے بارے میں پلان کر لیا ہے. اب تم نے دیکھا کہ گاؤں والوں کے پاس کوئی جاب نہیں ہے کوئی زیادہ امیر بھی نہیں ہیں مگر وہ اپنی زندگی کو پوری طرح جی رہے ہیں"
"ہمم تم نے سہی کہا" طلحہ نے جواب دیا
جیسے جیسے دن ہفتوں میں بدلتے گئے اور سفر جاری رہا، طلحہ کا نقطہ بلکل ہی بدل گیا۔ اسے احساس ہوا کہ زندگی سیدھی لکیر نہیں ہے۔ یہ ایک غیر متوقع سڑک تھی جس میں بیشمار موڑ اور غیر متوقع خزانے ہیں۔
جب وہ آخرکار گھر واپس آئے، طلحہ نے محسوس کیا کہ وہ مختلف ہے. اس نے اپنی ملازمت کی تلاش جاری رکھی، لیکن اس بار صبر اور لچک کے نئے احساس کے ساتھ۔ اس نے ایک مقامی کمیونٹی سنٹر میں رضاکارانہ طور پر کام کرنا بھی شروع کیا، جہاں اس نے دوسروں کی مدد کرنے کا ایسا جذبہ محسوس کیا جسے اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
مہینے گزر گئے، اور ایک دن، رضاکارانہ طور پر، طلحہ کو ایک کال موصول ہوئی۔ یہ ایک نوکری کی پیشکش تھی، لیکن نہ صرف کوئی عام نوکری کی پیشکش بلکہ یہ ایک ایسی پوزیشن تھی جو کمیونٹی سروس سے مطلق تھی.جو اس کے نئے جذبے کے ساتھ بالکل ہم آہنگ تھی۔
طلحہ نے شکر گزاری کے ساتھ پیشکش قبول کر لی۔ اسے احساس ہوا کہ اس کا سفر، جو بے یقینی سے شروع ہوا تھا، اسے ایک ایسی منزل تک لے گیا جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ بعض اوقات، سڑک نئی منزلوں تک لے جا سکتی ہے۔